خطے کی بدلتی صورتِ حال میں چین اور پاکستان کے درمیان دفاعی سطح پر تعاون میں اضافہ
ماہرین کا کہنا ہے کہ خطے کی بدلتی صورتِ حال میں چین اور پاکستان کے درمیان دفاعی سطح پر تعاون میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے جو کہ دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے علاوہ دونوں ممالک کی افواج کو ایک دوسرے کے عسکری نظام کو سمجھنے میں مدد دے گا۔
پاکستان آرمی اور چینی ‘پیپلز لبریشن آرمی’ (پی ایل اے) کے درمیان یہ مشترکہ فوجی مشق ‘واریئر-8’ 19 نومبر سے 11 دسمبر تک جہلم کے قریب ٹلہ فیلڈ فائرنگ رینج میں جاری رہیں۔یہ مشترکہ مشقیں ایسے وقت میں ہوئی ہیں جب پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور ان حملوں میں چینی شہریوں اور منصوبوں کو بھی ہدف بنایا گیا ہے۔
واضح رہے کہ آخری بار دونوں ملکوں نے 2019 میں مشترکہ انسدادِ دہشت گردی مشقیں کی تھیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ خطے کی بدلتی صورتِ حال میں چین اور پاکستان کے درمیان دفاعی سطح پر تعاون میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے جو کہ دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے علاوہ دونوں ممالک کی افواج کو ایک دوسرے کے عسکری نظام کو سمجھنے میں مدد دے گا۔
سابق سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل (ر) آصف یاسین ملک کہتے ہیں کہ چین کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقوں میں کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک معمول کا سالانہ عمل ہے جو پاکستان نیٹو، روس، امریکہ اور خلیجی ممالک کے ساتھ بھی کرتا رہتا ہے۔یہ مشقیں ٹیکٹیکل اور آپریشنل سطح کی تھیں اور ان مشقوں کو پاکستان اور چین کے فوجی تعاون سے زیادہ نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ دو طرفہ فوجی تعاون کے فروغ کے لیے ایسی مشقیں ماضی میں بھی ہوتی رہی ہیں۔امریکہ اور مغرب کے ساتھ اعتماد میں کمی کے باعث حالیہ عرصے میں پاکستان کا فوجی اعتبار سے ہمسایہ ملک چین کے ساتھ تعاون بڑھ رہا ہے۔مشترکہ فوجی مشقوں کا کوئی ایک مقصد نہیں ہوتا ہے بلکہ اس میں مختلف ماحول میں استعداد کو پرکھا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایسی فوجی مشقیں ایک دوسرے کے اسلحے کو استعمال کرنے اور ایک دوسرے کے فوجی نظام کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے میں مدد دیتی ہیں۔حالیہ عرصے میں چینی شہریوں پر حملوں کے بعد بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق بیجنگ نے اسلام آباد سے مطالبہ کیا ہے کہ چینی سیکیورٹی اہلکاروں کو پاکستان میں تعینات کرنے کی اجازت دی جائے۔ تاہم پاکستان نے ان رپورٹس کی تردید کی تھی۔
چین کی جانب سے اس مشترکہ مشق کا اعلان کیا گیا تو اسی دوران پاکستان نے 19 نومبر کو بلوچستان میں بڑے فوجی آپریشن کا اعلان کیا تھا۔پاکستانی حکام ملک میں سیکیورٹی فورسز اور شہریوں پر عسکریت پسندوں کے حملوں میں ڈرامائی اضافے کا الزام ہمسایہ ملک افغانستان میں عسکریت پسند تنظیموں کی پناہ گاہوں کو قرار دیتے ہیں۔
پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے گزشتہ ماہ گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ حملے پڑوسی ملک افغانستان میں "ٹی ٹی پی کی پناہ گاہوں” سے کیے جا رہے ہیں۔ تاہم افغانستان کی طالبان حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔
ایسے میں ذرائع ابلاغ میں ان دہشت گرد تنظیموں کے خلاف پاکستان اور چین کے مشترکہ آپریشن کی رپورٹس بھی ہیں۔
چین کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان یو شیاو یانگ نے گزشتہ ماہ اسلام آباد کا دورہ کیا تھا جہاں رپورٹس کے مطابق پاکستانی حکام نے ان کے ساتھ افغانستان میں ٹی ٹی پی کی موجودگی اور اس سے علاقائی استحکام کو لاحق خطرات کے حوالے سے شواہد شیئر کیے تھے۔اسلام آباد اور بیجنگ کی طرف سے اس بارے میں میڈیا رپورٹس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔ ایک مختصر بیان میں پاکستانی حکام کی جانب سے کہا گیا کہ افغانستان کی صورتِ حال بات چیت کا مرکز تھی۔ بیان کے مطابق پاکستان اور چین نے "پرامن اور مستحکم افغانستان کے لیے پڑوسی ممالک کے اہم کردار کا اعادہ کیا۔”