
نمائندہ خصوصی
آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کے ضلع کوٹلی میں ڈپٹی کمشنر کی جانب سے جاری کردہ ایک متنازع حکم نامہ نے انسانی حقوق، مذہبی آزادی اور سرکاری اداروں کی ترجیحات پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
یہ حکم نامہ، جو ستمبر 2025 کے اوائل میں جاری ہوا، میں مسلمانوں اور جماعت احمدیہ کے تدفین کے طریقہ کار کو علیحدہ اور "واضح” کرنے کی ہدایت دی گئی ہے، اور اس مقصد کے لیے مقامی سطح پر مختلف مکاتب فکر کے علما کو شامل کر کے ایک "رہنما طریقہ کار” ترتیب دینے کی بات کی گئی ہے۔
حکم نامے کا پس منظر
ضلع کوٹلی کے ڈپٹی کمشنر کی طرف سے جاری کیے گئے اس نوٹیفکیشن میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ:
"ضلع میں تدفین کے معاملات میں الجھن اور عوامی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے، ضروری ہے کہ مسلمانوں اور قادیانی جماعت (احمدیہ) کے تدفینی طریقہ کار کو الگ اور واضح کیا جائے، تاکہ کسی قسم کے تنازع یا اشتعال انگیزی سے بچا جا سکے۔”
اس اعلامیے میں نہ صرف تدفینی طریقوں کو "علیحدہ” کرنے کی بات کی گئی بلکہ "مسلمانوں کے عقیدے” کے مطابق تدفین کو یقینی بنانے کے لیے علمائے کرام کی مشاورت کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ احمدیہ جماعت کو سرکاری حکم ناموں میں اس انداز میں نشانہ بنایا گیا ہو، تاہم اس بار معاملہ ایک حساس انسانی پہلو، یعنی آخری رسومات کے دائرے میں لایا گیا ہے۔
جماعت احمدیہ کا ردعمل: "ترجیحات قابلِ افسوس”
اس حکم نامے پر جماعت احمدیہ کے مرکزی ترجمان جناب عامر محمود نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ:
"ایک طرف وطن عزیز سیاسی، اقتصادی، تعلیمی اور موسمیاتی بحرانوں میں گھرا ہوا ہے، اور دوسری طرف حکومت کے اہلکار اور ادارے اپنی توانائیاں ایسے معاملات پر صرف کر رہے ہیں جو سراسر نفرت کو فروغ دینے کے مترادف ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ:
"احمدی شہری پاکستان کے وفادار اور قانون پسند شہری ہیں۔ ان کے ساتھ بار بار دوسرے درجے کے شہری جیسا سلوک کیا جانا آئینی اور اخلاقی طور پر ناقابل قبول ہے۔”
عامر محمود نے زور دیا کہ ایسے اقدامات نہ صرف آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 20 (مذہبی آزادی) کے خلاف ہیں بلکہ یہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیارات سے بھی متصادم ہیں۔
سوالات: کیا یہ انتظامی ترجیح ہے یا مذہبی سیاست؟
ڈپٹی کمشنر کوٹلی کے اس اقدام نے کئی حلقوں میں تشویش پیدا کر دی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی کے نمائندگان نے سوال اٹھایا ہے کہ:
کیا ایک ڈپٹی کمشنر کا دائرہ اختیار اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ مذہبی معاملات پر اس حد تک مداخلت کرے؟
کیا ایسے حساس معاملات کا حل بیوروکریسی کی سطح پر ممکن ہے یا یہ صرف مذہبی منافرت کو ہوا دینے کا ذریعہ بنے گا؟
جبکہ ملک بھر میں مہنگائی، بے روزگاری، تعلیم، صحت اور دیگر چیلنجز درپیش ہیں، کیا تدفین کی "وضاحت” حکومت کی ترجیح ہونی چاہیے؟
ایک مقامی سماجی کارکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا:
"یہ دراصل مقامی سیاست کو مذہب کے نام پر چمکانے کی ایک پرانی چال ہے۔ لیکن اس بار حد یہ ہے کہ مرحومین کی آخری رسومات کو بھی سیاست کی نذر کیا جا رہا ہے۔”
آئینی اور قانونی پہلو
پاکستان کا آئین شہریوں کو مذہب، عقیدے اور عبادات کے حوالے سے آزادی دیتا ہے۔
آرٹیکل 20 کے مطابق:
"ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل کرنے، تبلیغ کرنے، اور عبادات بجا لانے کی آزادی حاصل ہے۔”
اس کے علاوہ، سپریم کورٹ آف پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں بھی مذہبی آزادی سے متعلق متعدد فیصلے موجود ہیں، جن میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی بارہا توثیق کی گئی ہے۔
ایسے میں ایک ضلعی سطح کے افسر کی طرف سے مذہبی اقلیت کے تدفینی معاملات میں مداخلت کو نہ صرف غیر آئینی بلکہ عدالتی احکامات کے منافی بھی قرار دیا جا رہا ہے۔
احمدیہ جماعت کی پوزیشن: پرامن اور قانون پسند شہری
پاکستان میں جماعت احمدیہ کو 1974 میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے غیر مسلم قرار دیا گیا تھا، جس کے بعد 1984 میں آرڈیننس XX کے تحت ان کے مذہبی اظہار پر متعدد پابندیاں عائد کر دی گئیں۔
تاہم اس کے باوجود، جماعت احمدیہ نے ہمیشہ پرامن رہتے ہوئے قانونی دائرے میں اپنے حقوق کے تحفظ کی بات کی ہے۔
عامر محمود کا کہنا تھا:
"ہم پاکستان کو اپنا وطن سمجھتے ہیں۔ ہم اس کی ترقی، امن اور استحکام کے لیے دعاگو ہیں، لیکن افسوس ہے کہ ہمیں بار بار ایسے غیر ضروری تنازعات میں گھسیٹا جاتا ہے جن کا مقصد صرف نفرت کو فروغ دینا ہے۔”
نتیجہ: کیا ہمیں دوبارہ ترجیحات پر غور کرنے کی ضرورت ہے؟
کوٹلی میں جاری ہونے والا یہ حکم نامہ اس بات کا غماز ہے کہ ہماری انتظامی ترجیحات اور معاشرتی حساسیت میں ایک واضح خلا موجود ہے۔ جہاں ایک طرف ریاست معاشی، تعلیمی اور ماحولیاتی بحرانوں سے نمٹنے میں مصروف ہونی چاہیے، وہاں دوسری طرف مذہبی اقلیتوں کی قبروں اور رسومات پر بحث ظاہر کرتی ہے کہ ابھی بھی تنگ نظری اور مذہبی سیاست ہماری فیصلہ سازی پر غالب ہے۔
ایک باشعور، ترقی پذیر اور متنوع معاشرے میں ایسے اقدامات نہ صرف اقلیتوں کو دیوار سے لگاتے ہیں بلکہ مجموعی طور پر ملک کے عالمی امیج کو بھی متاثر کرتے ہیں۔
کیا ریاست اپنی توانائیاں تعمیری کاموں میں لگائے گی یا مذہبی تفریق کو ہوا دیتی رہے گی؟
یہ سوال نہ صرف کوٹلی کے عوام بلکہ پوری قوم کے سامنے کھڑا ہے۔




