
بھارت کی جانب سے سکھ یاتریوں پر پاکستان آمد پر پابندی؛ پاکستان سکھ کمیونٹی کا سخت ردِعمل — ’میچ کھیل سکتے ہیں تو سکھ یاتری کیوں نہیں جا سکتے؟‘
سکھ برادری اپنے مقدس مقامات، خصوصاً کرتارپور صاحب اور ننکانہ صاحب کی زیارت کے بغیر اپنے مذہبی فریضے کو مکمل نہیں سمجھتی۔
دہلی خصوصی نمائندہ: بھارت کی حکومت کی جانب سے سکھ یاتریوں کو پاکستان جانے سے روکنے کے حالیہ فیصلے نے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان مذہبی رواداری پر سوالات اٹھا دیے ہیں بلکہ لاکھوں سکھوں کے مذہبی جذبات کو بھی شدید ٹھیس پہنچائی ہے۔ پاکستان کی سکھ برادری اور مذہبی رہنماؤں نے بھارت کے اس اقدام کو عالمی اصولوں، بین الاقوامی انسانی حقوق اور اخلاقی اقدار کے سراسر منافی قرار دیا ہے۔
بھارت کی پابندی پر شدید تحفظات، سکھ رہنماؤں کا مطالبہ: فیصلہ فوری واپس لیا جائے
پاکستان سکھ گردوارہ پربندھک کمیٹی (PSGPC) کے نائب صدر مہیش سنگھ نے اس اقدام کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے 12 ستمبر کو نافذ کی گئی یہ پابندی ایک طرف تو مذہبی آزادی کو سلب کرتی ہے اور دوسری طرف سکھوں کی مذہبی رسومات میں مداخلت کے مترادف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی خدشات کو جواز بنا کر لاکھوں سکھوں کو ان کے مقدس مقامات کی زیارت سے روکنا قطعی ناقابلِ قبول ہے۔
انہوں نے کہا:
"سکھ برادری اپنے مقدس مقامات، خصوصاً کرتارپور صاحب اور ننکانہ صاحب کی زیارت کے بغیر اپنے مذہبی فریضے کو مکمل نہیں سمجھتی۔ اگر بھارت اور پاکستان کے درمیان کرکٹ میچ ممکن ہیں تو سکھ یاتریوں کو ان کی عبادات کی اجازت کیوں نہیں دی جا سکتی؟”
سیاسی تناؤ، ویزوں کی معطلی، لیکن کرتارپور راہداری کی کشادگی پاکستان کی مذہبی رواداری کا مظہر
یہ تنازع ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب بھارت اور پاکستان کے تعلقات پہلے ہی کشیدہ ہیں۔ مئی 2025 میں ہونے والے سرحدی جھڑپوں اور کشمیر میں دہشت گرد حملوں کے بعد دونوں ممالک نے سفارتی تعلقات محدود کر دیے تھے، جبکہ ویزہ اجرا بھی تقریباً معطل ہو چکا ہے۔ اس کے باوجود، کرتارپور راہداری کھلی ہے اور پاکستان کی حکومت نے اس کی حفاظت اور بحالی کو ترجیحی بنیادوں پر جاری رکھا ہے۔
پاکستانی حکام نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ ملک میں موجود تمام اقلیتوں کے مذہبی جذبات کا احترام کیا جاتا ہے اور سکھ یاتریوں کے لیے دروازے مکمل طور پر کھلے ہیں۔
کرتارپور صاحب کی بحالی — سیلاب کے باوجود چند دنوں میں مکمل بحالی
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ مون سون بارشوں اور بھارت کی جانب سے پانی چھوڑنے کے نتیجے میں ضلع نارووال میں واقع کرتارپور صاحب شدید متاثر ہوا تھا، اور پانی کی سطح 20 فٹ تک جا پہنچی تھی۔ تاہم، وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی خصوصی ہدایت پر صفائی، بحالی اور تزئین و آرائش کا عمل تیزی سے مکمل کیا گیا، اور صرف ایک ہفتے میں اس مقدس مقام کو دوبارہ زائرین کے لیے کھول دیا گیا۔
پاکستانی افسر غلام محی الدین کے مطابق، اگر بھارت یاتریوں پر پابندی اٹھا لے تو رواں سال بھارتی سکھوں کی تعداد کرتارپور صاحب میں ریکارڈ سطح تک پہنچ سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ:
"ہم نے رہائش، سیکیورٹی، کھانے پینے اور دیگر سہولیات کے لیے مکمل انتظامات کیے ہیں۔”
سوشل میڈیا پر بھی ردِعمل — گیانی ہرپریت سنگھ کا سخت سوال
بھارت میں بھی سکھ برادری کے کئی رہنماؤں نے بھارتی حکومت کے اس فیصلے پر تنقید کی ہے۔ ممتاز مذہبی رہنما گیانی ہرپریت سنگھ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X (سابقہ ٹوئٹر) پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا:
"اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ میچ ممکن ہیں، تو مذہبی یاترا کیوں نہیں؟ مذہب سیاست سے بالاتر ہونا چاہیے۔”
ان کا بیان سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو رہا ہے اور بھارت سمیت دنیا بھر کی سکھ برادری اس فیصلے کے خلاف آواز بلند کر رہی ہے۔
پاکستانی ہائی کمیشن ویزوں کے لیے تیار، بھارت کی خاموشی قابلِ افسوس
پاکستان سکھ گردوارہ پربندھک کمیٹی کے مطابق، پاکستانی حکومت نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کو ہدایت دی ہے کہ وہ سکھ یاتریوں کو ویزے جاری کرے، بشرطیکہ بھارت اس پر پابندی نہ لگائے۔ مہیش سنگھ کا کہنا تھا:
"ہم نے حکومتی سطح پر مکمل یقین دہانی حاصل کی ہے کہ پاکستانی سرزمین سکھ یاتریوں کے لیے کھلی ہے۔ اب یہ بھارت پر منحصر ہے کہ وہ کب مذہبی آزادی کو تسلیم کرتا ہے۔”
تاہم، نئی دہلی کی جانب سے تاحال اس معاملے پر کوئی سرکاری تبصرہ سامنے نہیں آیا، جو اس حساس معاملے میں غیر سنجیدگی کی نشاندہی کرتا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر دباؤ بڑھنے کا امکان
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر بھارت نے یہ فیصلہ واپس نہ لیا تو نہ صرف سکھ برادری میں بے چینی بڑھے گی بلکہ بین الاقوامی برادری، خاص طور پر انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اقلیتوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے، بھارت پر دباؤ ڈال سکتے ہیں۔
اختتامیہ: مذہبی آزادی کی آزمائش
مذہبی آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہے، اور اقلیتوں کے حقوق کا احترام عالمی برادری کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ پاکستان کی جانب سے بارہا یہ پیغام دیا گیا ہے کہ مذہب، سیاست اور سفارت کاری کو علیحدہ رکھا جائے، تاکہ امن، ہم آہنگی اور باہمی رواداری کو فروغ ملے۔
اب دنیا کی نظریں نئی دہلی پر ہیں — کیا بھارت سکھوں کے مذہبی جذبات کا احترام کرے گا، یا سفارتی کشیدگی کو مذہبی حقوق پر حاوی رہنے دے گا؟





