
غزہ کو "ریئل اسٹیٹ پروجیکٹ” میں بدلنے کا منصوبہ؟ اسرائیلی وزراء اور سابق امریکی صدر کے بیانات نے عالمی سطح پر تشویش پیدا کر دی
“اسرائیل اور امریکہ نے اس جنگ پر بے پناہ سرمایہ خرچ کیا ہے، لہٰذا غزہ کی زمین کی فروخت سے حاصل ہونے والے منافع میں دونوں ممالک کو حصہ ملنا چاہیے۔”
تل ابیب/واشنگٹن/غزہ (عالمی خبر رساں ادارے) — اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے وزراء کی جانب سے غزہ کی تباہی کو "تعمیر نو” اور "ریئل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ” کا موقع قرار دیے جانے پر بین الاقوامی سطح پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے، جبکہ فلسطینی عوام اور انسانی حقوق کے ادارے ان بیانات کو کھلی نسلی تطہیر (Ethnic Cleansing) کی خواہش سے تعبیر کر رہے ہیں۔
"جنگ کے اخراجات کا شیئر، زمین کی فروخت پر منافع”: سموٹریچ کا متنازع بیان
بدھ کے روز تل ابیب میں شہری تجدید (Urban Renewal) کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے وزیر برزال سموٹریچ نے کہا:
“اسرائیل اور امریکہ نے اس جنگ پر بے پناہ سرمایہ خرچ کیا ہے، لہٰذا غزہ کی زمین کی فروخت سے حاصل ہونے والے منافع میں دونوں ممالک کو حصہ ملنا چاہیے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے امریکہ کے ساتھ پہلے ہی غزہ کو "تقسیم” کرنے کے منصوبے پر ابتدائی بات چیت شروع کر دی ہے، اور اس منصوبے کو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی میز پر "کاروباری تجویز” کے طور پر پیش بھی کیا جا چکا ہے۔
سموٹریچ نے دعویٰ کیا:
"ہم نے انہدام (demolition) کا مرحلہ مکمل کر لیا ہے، جو شہری تجدید کا پہلا مرحلہ ہوتا ہے — اب ہمیں تعمیر کی طرف بڑھنا ہے۔”
"شاندار محلہ” اور پولیس اسٹیشن: بین گویر کا نیا منصوبہ
اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر اتمار بین گویر نے بھی پیر کو ایسا ہی متنازع بیان دیا تھا، جس میں انہوں نے کہا:
"ہم غزہ شہر میں اسرائیلی پولیس افسران کے لیے ایک شاندار محلہ بنانے جا رہے ہیں، جہاں وہ محفوظ طریقے سے آباد ہوں گے۔”
بین گویر اور سموٹریچ کے بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب اسرائیل کی فوج نے غزہ شہر کے خلاف ایک نیا زمینی حملہ شروع کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں 10 لاکھ سے زائد افراد کو مزید جنوب میں تنگ اور بھری ہوئی پناہ گاہوں کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔
ٹرمپ کا "غزہ ریویرا” منصوبہ: AI ویڈیو اور ویژن
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے ہی غزہ کو ایک “بڑی رئیل اسٹیٹ سائٹ” قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسے "غزہ ریویرا” (Gaza Riviera) میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ وہاں سے 2.1 ملین فلسطینیوں کو نکال دیا جائے اور یہ علاقہ "امریکہ کی ملکیت” ہو۔
فروری میں ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ٹرتھ سوشل” پر ایک AI سے بنی ویڈیو بھی پوسٹ کی تھی، جس میں دکھایا گیا تھا کہ غزہ کو ایک خلیجی ریاست کی طرز پر جدید ریزورٹ میں بدلا جا رہا ہے، جہاں:
ٹرمپ کا سنہری مجسمہ ہے
ایلون مسک ہمس (Hummus) کھا رہے ہیں
امریکی و اسرائیلی رہنما ساحل پر بغیر قمیض کے بیٹھے ہیں
عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا ردعمل
ان بیانات اور منصوبوں پر بین الاقوامی سطح پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں، ماہرین اور اقوام متحدہ کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ:
یہ منصوبے واضح طور پر بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزی ہیں
فلسطینیوں کو جبری بے دخلی (Forced Displacement) کا سامنا ہے
"تجدید” اور "ترقی” کے نام پر اصل میں نسلی صفائی (Ethnic Cleansing) اور قبضہ چھپایا جا رہا ہے
غزہ کی موجودہ صورتحال: تباہی، بھوک اور بے گھری
غزہ شہر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے
لاکھوں فلسطینی شہری بے گھر ہو چکے ہیں
بنیادی سہولیات، خوراک، بجلی اور پانی ناپید ہو چکے ہیں
اسرائیلی ٹینک شہر کے داخلی راستوں پر پوزیشن لے چکے ہیں، اور بڑے پیمانے پر زمینی کارروائی کی اطلاعات ہیں
ناقدین کی رائے: سرمایہ داری اور قبضہ پر مبنی ‘تعمیر نو’
ناقدین کا کہنا ہے کہ:
"یہ صرف جنگ نہیں، بلکہ ایک منصوبہ بند اقتصادی اور سیاسی قبضہ ہے، جس میں فلسطینی عوام کو اپنی ہی سرزمین سے بے دخل کر کے اسے سرمایہ کاری اور پرتعیش تفریح گاہ میں بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔”
یہ حکمت عملی بظاہر "شہری ترقی” اور "تعمیر نو” کے الفاظ میں لپٹی ہوئی ایک بڑی زمینی ہتھیائی (Land Grab) ہے، جسے عالمی سطح پر شدید مخالفت کا سامنا ہو سکتا ہے۔
نتیجہ: غزہ کا مستقبل — تباہی کے بعد تعمیر یا قبضے کا نیا روپ؟
اس وقت غزہ شدید انسانی بحران کا شکار ہے، جہاں لاکھوں افراد کی جانیں خطرے میں ہیں۔ اسرائیلی وزراء اور بعض امریکی سیاستدانوں کی جانب سے اس بحران کو ریئل اسٹیٹ موقع بنانے کی باتیں نہ صرف غیر اخلاقی ہیں بلکہ یہ بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی بھی ہو سکتی ہیں۔
عالمی برادری، بالخصوص اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ آیا وہ صرف مذمت تک محدود رہیں گے یا عملی اقدامات کریں گے تاکہ فلسطینی عوام کے انسانی، سیاسی اور زمینی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔