
دنیا پھوٹتی جا رہی ہے، اور خاموشی گہری ہوتی جا رہی ہے…….سید عاطف ندیم(اداریہ)
نیتن یاہو کے خطاب کی گونج، غزہ کی خاموش چیخوں تک محدود کیوں ہے؟
دنیا آج ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہے جہاں ایک طرف کچھ خطے ترقی اور طاقت کے نشے میں بدمست ہیں، اور دوسری طرف ایسے علاقے ہیں جہاں لوگ صرف محفوظ زندگی کی تمنا میں دن کاٹ رہے ہیں۔ ایک طرف جشن، طاقت، اور بیانیوں کی بازگشت ہے، تو دوسری طرف خون، ملبہ، اور لاشوں کا بوجھ۔ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان جو چیز سب سے زیادہ واضح ہے، وہ ہے عالمی برادری کی خاموشی۔
حال ہی میں اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے ایک جذباتی اور پُرجوش خطاب کیا، جس میں انہوں نے "اپنی دنیا” کا ایک نیا وژن پیش کیا۔ اس خطاب میں طاقت، دفاع اور قومی سلامتی کے بیانیے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا — لیکن اس تقریر میں غزہ، مغربی کنارے، یا فلسطینی عوام کی تکالیف کے لیے ایک جملہ بھی وقف نہ کیا گیا۔
نیتن یاہو کی آواز میں جوش ضرور تھا، لیکن اس جوش کی بازگشت غزہ کی گلیوں میں تباہی کا پیش خیمہ بن کر گونجی۔ ان کی تقاریر جب بین الاقوامی اسٹیجز پر داد وصول کر رہی تھیں، اسی لمحے غزہ میں بچے مٹی کے ڈھیر تلے دبے ہوئے تھے، خواتین اسپتالوں میں دوائیوں کے بغیر کراہ رہی تھیں، اور گھروں کے کھنڈرات سے زندگی کے آثار تلاش کیے جا رہے تھے۔
اب ایک نکتہ واضح ہوتا جا رہا ہے: دنیا میں بعض جگہوں پر بحران "نارمل” بن چکا ہے۔ غزہ کی تباہی اب نیوز کے بریکنگ میں شامل نہیں، بلکہ پیچھے کے صفحات پر دفن کر دی گئی ہے۔
دنیا جب یوکرین کے لیے لاکھوں کی امداد بھیجتی ہے، اور یورپ کے لیے انسانی حقوق کے جھنڈے اٹھاتی ہے، تو فلسطین کے لیے محض "گہرے افسوس” کا ایک سادہ بیان ہی کافی سمجھا جاتا ہے۔ یہ دوہرا معیار اب کوئی راز نہیں رہا — یہ ایک حقیقت ہے، جسے عالمی برادری چپ چاپ قبول کر رہی ہے۔
غزہ کی حالیہ صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے طبقات عورتیں اور بچے ہیں۔ جب بمباری ہوتی ہے تو وہ اسکولوں، ہسپتالوں، اور گھروں کو نہیں بخشتی۔ اور یہی وہ جگہیں ہیں جہاں یہ بے قصور زندگیاں موجود ہوتی ہیں۔
عینی شاہدین کے مطابق، حالیہ حملوں میں اسپتالوں اور امدادی مراکز کو بھی نشانہ بنایا گیا، جنہیں جنگی قوانین کے تحت محفوظ تصور کیا جاتا ہے۔ اس سے یہ پیغام واضح ہوتا ہے کہ انسانی حقوق کے عالمی اصول اب صرف کتابوں کی زینت رہ گئے ہیں۔
دنیا خاموش ہے — اقوامِ متحدہ تشویش کا اظہار کرتی ہے، یورپی یونین بیانات دیتی ہے، امریکہ توازن قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے، اور عرب دنیا صرف مذمت تک محدود ہے۔
یہ سب کچھ سننے میں بظاہر کافی معلوم ہوتا ہے، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ غزہ کی گلیاں اب بھی لاشیں گن رہی ہیں، بچے اب بھی بے آسرا ہیں، اور بے گھر خاندان اب بھی خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
سوال یہ ہے: عالمی برادری کب جاگے گی؟ کیا دنیا تب ہی حرکت میں آئے گی جب یہ آگ یورپ یا امریکہ کی دہلیز پر آ جائے؟ کیا فلسطینیوں کی زندگی کی قیمت کم ہے؟
اگر دنیا واقعی امن چاہتی ہے، تو صرف مذمتی بیانات کافی نہیں ہوں گے۔ اب وقت ہے کہ:
اقوامِ متحدہ اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کروائے
عالمی عدالتیں جنگی جرائم پر مقدمات کا آغاز کریں
مغربی طاقتیں دوہرا معیار ترک کر کے یکساں انسانی حقوق کا احترام کریں
عرب و مسلم ممالک زبانی حمایت کے بجائے عملی اقدامات کریں
وزیراعظم نیتن یاہو ایک "نئی دنیا” کی بات کرتے ہیں، اور واقعی دنیا کو نئی شکل دینے کی ضرورت ہے۔ لیکن وہ دنیا ایسی ہونی چاہیے جس میں طاقت کے بجائے انصاف، تباہی کے بجائے امن، اور خاموشی کے بجائے آواز کو ترجیح دی جائے۔
اگر آج دنیا نے ایک مظلوم قوم کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے خاموشی اختیار کی، تو کل یہی آگ اس کے اپنے دامن کو بھی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔


