کالمزپیر مشتاق رضوی

نیویارک میں اسلاموفوبیا اور سرمایہ دارانہ نظام کی شکست….. ۔پیر مشتاق رضوی

ٹرمپ نے کہاتھاکہ اگر وہ امیگریشن کے راستے میں آئے تو ہمیں اسے گرفتار کرنا پڑے گا

ظہران ممدانی کی نیویارک میئر شپ کی جیت مغربی دنیا میں حیرانی اور پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے، خاص طور پر ان کے سیاسی نظریات اور پالیسیوں کی وجہ سے۔ ممدانی نے ڈیموکریٹک پارٹی کی امریکہ کے اندرونی انتخابات میں حیران کن کامیابی حاصل کی ہے ظہران ممدانی نیویارک کے پہلے مسلم میئر ہیں، جو ڈیمو
کریٹک سوشلسٹ ہیں اور انہوں نے نیویارک کے میئر کے انتخاب میں تاریخی کامیابی حاصل کی ہے۔ وہ 34 سال کی عمر میں نیویارک کے سب سے کم عمر میئر بھی بن گئے ہیں۔ان کی کامیابی کو امریکی مسلم کمیونٹی کے لیے ایک اہم سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے، اور انہوں نے اپنی مہم کے دوران سماجی برابری، عوامی خدمات، اور شفاف حکمرانی پر زور دیا۔ممدانی کی جیت کو "ورکنگ کلاس کی جیت” قرار دیا گیا ہے، اور انہوں نے اپنی مہم کے دوران فلسطین کے حق میں کھل کر آواز اٹھائی ہے۔ انہوں نے اسرائیل کے غزہ پر حملوں کو نسل کشی قرار دیا ہے اور انسانی حقوق کی کھلی حمایت کی ہے ڈونلڈ ٹرمپ نے ظہران ممدانی کی جیت کو تسلیم نہیں کیا ہے اور اس کی وجہ ممدانی کے سیاسی نظریات اور ان کی پالیسیاں ہو سکتی ہیں۔ ٹرمپ نے ممدانی کو "کمیونسٹ پاگل” کہا تھا اور ان کی پالیسیوں پر تنقید کی جو ٹرمپ کے اپنے سیاسی نظریات سے مختلف ہیں۔ٹرمپ کی طرف سے ممدانی پر تنقید اور دھمکیاں دی جا رہی ہیں، جس میں انہیں گرفتار کرنے اور ملک بدر کرنے کی باتیں بھی شامل ہیں۔ ممدانی نے ان دھمکیوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ خوف زدہ نہیں ہیں اور اپنے کام کو جاری رکھیں گےٹرمپ کی مخالفت کی ایک وجہ ممدانی کی ترقی پسند پالیسیاں بھی ہو سکتی ہیں، جو ٹرمپ کی اپنی پالیسیوں سے مختلف ہیں۔ ممدانی نے اپنے منشور میں کرایوں پر کنٹرول، مفت بسیں، اور تارکین وطن کے لیے قانونی امداد کی فراہمی جیسے وعدے کیے ہیں، جو ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف ہیں۔ممدانی کی جیت کو تسلیم نہ کرنے کی ایک اور وجہ ٹرمپ کی اپنی سیاسی مقاصد بھی ہو سکتے ہیں، جہاں وہ اپنی پارٹی کی سیاسی حمایت کو برقرار رکھنے اور اپنی سیاسی طاقت کوظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ممدانی کو”کمیونسٹ” قرار دیتے ہوئے تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ اگر وہ جیت گئے تو نیویارک کے لیے بہت برا ہوگا۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ ممدانی کو وفاقی فنڈز نہیں دیں گےڈونلڈ ٹرمپ نے نیویارک سٹی کے میئر کے لیے ڈیمو کریٹک امیدوار ظہران ممدانی کو گرفتار کرنے کی دھمکی دے کر ایک نیا سیاسی تنازعہ کھڑا کر دیا تھا۔ ٹرمپ نے کہاتھاکہ اگر وہ امیگریشن کے راستے میں آئے تو ہمیں اسے گرفتار کرنا پڑے گا۔ ظہران ممدانی نے اس پر سخت ردعمل دیتے ہوئے صدر ٹرمپ کی دھمکیوں کو سیاسی انتقام اور دھونس قرار دیا ظہران ممدانی کی جیت سے ٹرمپ کی مقبولیت کو خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے، ٹرمپ نےہر قیمت پر ممدانی کو نیویارک کا میئر بننے سے روکنے کی بھر پور کوشش کی ۔ ٹرمپ کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ممدانی کی کامیابی کو اپنی مقبولیت کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں جبکہ ٹرمپ کے حمایتی ارب پتیوں نے مجموعی طور پر 2 کروڑ 20 لاکھ ڈالر سے زائد رقم خرچ کی، سابق میئر مائیکل بلوم برگ نے ممدانی کے حریف اینڈریوکو مہم کیلئے15 لاکھ ڈالر دیے کیونکہ ظہران ممدانی نے مجوزہ پالیسیاں متعارف کروائی ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کے بنیادی اصولوں کو چیلنج کرتی ہیں یا بڑے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے مفادات کو متاثر کرتی ہیں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے سرمایہ دارانہ نظام کو شکست دی ہے۔ ممدانی کی جیت کو روکنے کے لیے ٹرمپ نے وفاقی فنڈز روکنے کی دھمکی بھی دی تھی جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ ممدانی کی مقبولیت کو سنجیدہ لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ٹرمپ نے ممدانی کے حامیوں کو "بے وقوف” کہا جس سے ممدانی کی ناراضی ظاہر ہوتی ہے۔ جبکہ ممدانی کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کی اندرونی انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے اور نیویارک کے میئر کے عہدے کے لیے مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آئے اور جیت ان کا مقدر بنی ۔ ان کی مہم میں تقریباً 90 ہزار رضاکار سرگرم رہے، جن میں زیادہ تر نوجوان ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے انتخابی مہم میں عوامی مسائل پر توجہ دی اور نوجوانوں کی اکثریت کی حمایت حاصل کی۔۔ٹرمپ کی مقبولیت کو ممدانی کی جیت سے کتنا خطرہ ہے؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ممدانی کی کامیابی نے امریکی سیاست میں ایک نئی لہر پیدا کر دی ہے ممدانی کی جیت کو مغرب میں اس لیے بھی اہم سمجھا جا رہا ہے کہ وہ ایک کھلے ذہن کے حامل شخص ہیں اور ان کے نظریات مغربی دنیا کے روایتی خیالات سے مختلف ہیں۔ وہ اسرائیل کے سخت ناقد ہیں اور انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر اسرائیل کا وزیر اعظم نیتن یاہو نیویارک آئے تو وہ بطور میئر ان کی گرفتاری کا حکم دیں گے ممدانی نیتن یاہو اور مودی کو انسانی حقوق کے تناظر میں دیکھتے ہیں ۔مغربی دنیا میں ممدانی کی جیت کو ایک نئے سیاسی دور کی شروعات کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے، جہاں اقلیتوں اور مختلف نظریات کے حامل لوگ سیاست میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ظہران ممدانی نے نیویارک کے میئر کے طور پر اپنی معاشی پالیسیوں کے بارے ممدانی نے وعدہ کیا ہے کہ وہ امیر ترین شہریوں پر ٹیکس بڑھا کر متوسط اور نچلے طبقے پر سے بوجھ کم کریں گے۔ اس سے شہر کی آمدنی میں اضافہ ہوگا اور اجتماعی بہبود کےمنصوبوں پر اخراجات میں مدد ملے گی۔ ممدانی نے کرایوں کو منجمد کرنے کا وعدہ کیا ہے، جس سے کرایہ داروں کو ریلیف ملے گا اور انہیں اپنی زندگی گزارنے میں آسانی ہوگی۔ ممدانی نے وعدہ کیا ہے کہ وہ شہر کی ملکیت میں گروسری اسٹورز قائم کریں گے، جہاں سے لوگ سستی قیمتوں پر روزمرہ کی اشیا خرید سکیں گے۔ اس سے غریب اور متوسط طبقے کو فائدہ ہوگا۔ ممدانی نے وعدہ کیا ہے کہ وہ بسوں کا سفر عوام کے لیے مفت کریں گے، جس سے لوگوں کو نقل و حمل کی سہولت ملے گی اور ان کا سفر آسان ہوگا۔ ممدانی نے وعدہ کیا ہے کہ وہ عوامی سہولتیں بہتر بنائیں گے، جس میں سڑکوں کی تعمیر و مرمت، پارکوں کی بہتری، اور دیگر عوامی خدمات شامل ہیں۔ان معاشی اصلاحات کے ذریعے، ممدانی کا مقصد نیویارک کو ایک زیادہ منصفانہ اور خوشحال شہر بنانا ہے، جہاں تمام شہریوں کو برابر کے مواقع میسر ہوں۔ظہران ممدانی کی نیویارک کے میئر کے طور پر تاریخی جیت کے بعد، شہر میں کئی تبدیلیاں متوقع ہیں۔ ان کی انتخابی مہم کے وعدوں اور ان کے خطابات کے مطابق، کچھ ممکنہ تبدیلیاں یہ ہیں ممدانی نے کرایوں کو کنٹرول کرنے اور شہریوں کے لیے رہائش کو زیادہ سستی بنانے کا وعدہ کیا ہے۔ ان کا مقصد شہر میں بس سروس کو مفت کرنا ہے تاکہ عوام کو نقل و حمل میں آسانی ہو اور ٹریفک کے مسائل کم ہوں۔ ممدانی نے ضروریات زندگی کی اشیا کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے اور شہریوں کو سستی خوراک فراہم کرنے کے لیے اقدامات کریں گے انہوں نے مزدوروں کے حقوق کی حفاظت اور انہیں یونینز کے ذریعے منظم طریقے سے حمایت فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ممدانی نے بدعنوانی کے خلاف سخت کارروائی کرنے اور شہر میں شفافیت کو بڑھانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔انہوں نے تارکین وطن کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور انہیں شہر کی ترقی میں شامل کرنے کی کوششوں پر زور دیا ہے۔ ممدانی اسلامو فوبیا کے خلاف اقدامات کا عزم کا اظہار کیا ہے ظہران ممدانی کی جیت اسلام فوبیا کی واضح اور کھلی شکست ہے۔ ان کی کامیابی نے یہ ثابت کیا ہے کہ نیویارک جیسے متنوع اور روادار شہر میں، قابلیت اور عوامی خدمت کو فوقیت دی جاتی ہے، اور یہ کہ اسلام فوبیا اور امتیازی سلوک کو رد کیا جاتاہے۔ممدانی کی جیت نے یہ پیغام دیا ہے کہ مسلم کمیونٹی اور دیگر اقلیتوں کو اپنی آواز بلند کرنے اور اپنے حقوق کے لیے لڑنے کی ضرورت ہے ممدانی نے واضح کیا ہے کہ نیویارک میں اسلاموفوبیا کی کوئی جگہ نہیں ہوگی ان کی کامیابی کو امریکی مسلم کمیونٹی کے لیے ایک اہم سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے، اور انہوں نے اپنی مہم کے دوران سماجی برابری، عوامی خدمات، اور شفاف حکمرانی پر زور دیا۔اور وہ تمام کمیونٹیوں کے ساتھ یکساں طور پر کام کریں گے ان تبدیلیوں کا مقصد نیویارک کو ایک زیادہ منصفانہ، بااختیار اور خوشحال شہر بنانا ہے، جہاں تمام شہریوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ ظہران ممدانی کی جیت امریکی سیاست میں ایک تاریخی موڑ کی نمائندگی کرتی ہے، جس کے بعد کئی تبدیلیاں متوقع ہیں ممدانی کی کامیابی ترقی پسند پالیسیوں کو تقویت دے گی، جیسے کہ کرایوں پر کنٹرول، مفت بسیں، اور تارکین وطن کے لیے قانون سازی کی جائے گی وہ نیویارک کے پہلے مسلم میئر ہیں، جو مسلم کمیونٹی کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے۔ ممدانی کی جیت ڈیموکریٹک پارٹی کو ترقی پسند سمت میں لے جا سکتی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شدید مخالفت کے باوجود ممدانی کی کامیابی، سیاسی منظرنامے میں ایک نئی تبدیلی کی اشارہ ہے۔
ممدانی کی مہم نے نوجوانوں کو سیاست میں شامل ہونے کی ترغیب دی ہے۔ ممدانی کی پالیسیاں نیویارک کی سیاست میں ایک نئی سمت میں تبدیلیاں متوقع ہیں، جس میں عوامی خدمات اور سماجی برابری پر زور دیا گیا ہے

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button