
لاہور ہائیکورٹ میں متنازعہ ’’پنجاب پروٹیکشن آف اِمّوایبل پراپرٹی آرڈیننس 2025‘‘ چیلنج
عدالت کل بروز منگل 9 دسمبر کو اہم سماعت کرے گی—حکومت سے آئینی وضاحت طلب
سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز سینئر قانون دان کاشف مرزا کے ساتھ
صوبہ پنجاب میں جائیداد کے تنازعات کے حل کے لیے انتظامی افسران کو عدالتی اختیارات دینے سے متعلق متنازعہ ’’پنجاب پروٹیکشن آف اِمّوایبل پراپرٹی آرڈیننس 2025‘‘ کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔ جسٹس فاروق حیدر کل بروز منگل 9 دسمبر کو کیس کی اہم سماعت کریں گے، جس میں حکومت پنجاب کو اس بنیادی سوال کا جواب دینا ہوگا کہ انتظامی افسران کو عدالتی اختیارات سونپنے کی آئینی بنیاد کیا ہے؟
حکومت سے وضاحت طلب — عدلیہ کی آزادی بنیادی معاملہ قرار
گزشتہ سماعت میں عدالت نے حکومت پنجاب، چیف سیکرٹری، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور دیگر متعلقہ فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے حکم دیا تھا کہ وہ تفصیلی تحریری جواب جمع کرائیں۔
جسٹس فاروق حیدر نے ریمارکس دیے:
"عدلیہ کی آزادی آئین کا بنیادی جز ہے، اسے کسی صورت متاثر نہیں ہونے دیا جا سکتا۔ یہ انتہائی اہم نوعیت کا آئینی معاملہ ہے۔”
عدالت نے واضح کیا کہ اگر حکومت نے اپنی انتظامی حدود سے ہٹ کر اختیارات تفویض کیے ہیں، تو ہائیکورٹ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے مناسب فیصلہ کرے گی۔
پٹیشن کس نے دائر کی؟
یہ درخواست سینئر قانون دان کاشف مرزا کی جانب سے دائر کی گئی ہے، جس کی پیروی سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ سید ذوالفقار علی بخاری کر رہے ہیں۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ یہ آرڈیننس:
آئین کے بنیادی ڈھانچے
اصولِ علیحدگی اختیارات
عدلیہ کی خودمختاری
شہریوں کے بنیادی حقوق
… سبھی کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
پٹیشنر کا مؤقف: ‘‘انتظامیہ کو عدلیہ کے اختیارات دینا آئین شکنی ہے’’
درخواست گزار کاشف مرزا نے مؤقف اختیار کیا کہ:
"انتظامی افسران کو پراپرٹی تنازعات کے حل کے لیے عدالتی اختیارات دینا نہ صرف عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہے بلکہ آئین کے آرٹیکل 175(3) کی کھلی خلاف ورزی ہے، جو عدلیہ اور انتظامیہ کی علیحدگی کو لازم قرار دیتا ہے۔”
انہوں نے کہا کہ حکومت کا یہ اقدام ایک ’’متوازی عدالتی نظام‘‘ قائم کرنے کے مترادف ہے، جس سے انصاف کی فراہمی کا معیار متاثر ہوگا اور شہریوں کے بنیادی حقوق مجروح ہوں گے۔
سینئر ایڈووکیٹ سید ذوالفقار علی بخاری کے دلائل — ‘‘آرڈیننس عالمی انصاف کے معیار سے بھی ٹکراتا ہے’’
سینئر وکیل سید ذوالفقار علی بخاری نے عدالت کو بتایا کہ یہ آرڈیننس نہ صرف پاکستانی آئین کے خلاف ہے بلکہ عالمی اصولِ انصاف، اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 14 اور 19 سے بھی متصادم ہے، جو شہریوں کو شفاف ٹرائل اور غیر جانبدار عدلیہ کا بنیادی حق دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا:
"انتظامی افسران کو ماورائے آئین عدالتی اختیارات دینا شفاف ٹرائل اور عدالتی نگرانی کے اصولوں کے منافی ہے۔ ایسا نظام انصاف کی بنیادوں کو ہلا سکتا ہے۔”
پٹیشن میں اٹھائے گئے اہم نکات
درخواست گزار نے آرڈیننس کو مندرجہ ذیل وجوہات کی بنیاد پر غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کی ہے:
1. آئین کے آرٹیکلز کی خلاف ورزی
آرڈیننس آئین کے آرٹیکل 175، 202 اور 203 کی خلاف ورزی کرتا ہے، جو واضح کرتے ہیں کہ عدالتی اختیارات صرف عدلیہ ہی استعمال کر سکتی ہے۔
2. عدلیہ اور انتظامیہ کی علیحدگی کا اصول متاثر
درخواست میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے آئینی علیحدگی کے اصول کو پسِ پشت ڈال کر انتظامیہ کو عدالتی اختیارات سونپ دیے، جو طاقت کی تقسیم کے توازن کو بگاڑ دیتا ہے۔
3. سول کورٹس کے اختیارات کمزور کرنا
اس آرڈیننس کے نافذ ہونے سے سول عدالتوں کے اختیارات متاثر ہوں گے جبکہ شہریوں کو انصاف کے حصول میں شدید مشکلات درپیش آ سکتی ہیں۔
4. متوازی عدالتی نظام قائم کرنا
یہ اقدام ’’متوازی عدالتی ڈھانچہ‘‘ قائم کرنے کے مترادف ہے، جو آئین سے متصادم ہے اور عدلیہ کی عملداری کو براہ راست چیلنج کرتا ہے۔
درخواست میں کی گئی استدعا
پٹیشنر نے عدالت سے تین بنیادی درخواستیں کی ہیں:
متنازعہ آرڈیننس 2025 کو غیر آئینی اور کالعدم قرار دیا جائے۔
حکومت پنجاب کو حکم دیا جائے کہ پراپرٹی تنازعات سول کورٹس کے ذریعے حل کیے جائیں، نہ کہ انتظامی افسران کے ذریعے۔
آئندہ اس نوعیت کے کسی بھی آرڈیننس کے اجراء پر عارضی پابندی عائد کی جائے تاکہ عدلیہ کے اختیارات میں مداخلت نہ ہو۔
قانونی ماہرین کی رائے
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ ملک میں اختیارات کی تقسیم، عدالتی آزادی اور انتظامیہ کی حدود سے متعلق ایک بڑے آئینی سوال کو جنم دیتا ہے۔
ان کے مطابق:
"اگر عدالت نے آرڈیننس برقرار رکھا تو مستقبل میں انتظامیہ کو عدالتی حلقے میں مداخلت کا راستہ مل جائے گا، جس سے عدلیہ کی خودمختاری شدید متاثر ہو سکتی ہے۔”
یہ پٹیشن عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان اختیارات کے آئینی تعلق کو دوبارہ زیرِ بحث لا رہی ہے اور مستقبل کی قانون سازی پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔
اگلی سماعت—ملک بھر کی نظریں لاہور ہائیکورٹ پر
کیس کی آئندہ سماعت کل بروز منگل جسٹس فاروق حیدر کی عدالت میں ہوگی، جس میں امکان ہے کہ حکومت اپنا باضابطہ جواب پیش کرے۔
یہ کیس نہ صرف پنجاب کے انتظامی ڈھانچے بلکہ ملک کے عدالتی نظام کے مستقبل کے لیے بھی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔



