اہم خبریںیورپ

جرمن چانسلر فریڈرش میرس کا روسی جارحیت کے حوالے سے سخت انتباہ، یوکرین کو شکست دینے کے بعد پوٹن کی پیش قدمی کا خطرہ

اگر یوکرین کو شکست ہو جاتی ہے تو روس کی فوجی پیش قدمی کا سلسلہ رکنے کا کوئی امکان نہیں، اور وہ یورپی سرحدوں کی طرف بڑھیں گے

جواد احمد-جرمنی،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ

میونخ (جرمنی) — جرمن چانسلر فریڈرش میرس نے خبردار کیا ہے کہ اگر روس کی فوج یوکرین کو شکست دینے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو صدر ولادیمیر پوٹن کی جارحیت کا سلسلہ نہیں رکے گا اور وہ اپنی پیش قدمی کو مزید آگے بڑھائیں گے۔ میرس نے یہ انتباہ ہفتے کے روز میونخ میں باویریا کی قدامت پسند کرسچن سوشل یونین (CSU) پارٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دیا، جس میں انہوں نے کہا کہ یوکرین کی جنگ دراصل یورپ کی سرحدوں کی دوبارہ ترتیب دینے اور سوویت یونین کے سابق اثر و رسوخ کو دوبارہ بحال کرنے کی ایک کوشش ہے۔

جرمن چانسلر نے اس بات پر زور دیا کہ پیوٹن کا مقصد صرف یوکرین تک محدود نہیں ہے، بلکہ ان کی نظریں یورپ کی دیگر ریاستوں پر بھی ہیں۔ میرس نے کہا کہ اگر یوکرین کو شکست ہو جاتی ہے تو روس کی فوجی پیش قدمی کا سلسلہ رکنے کا کوئی امکان نہیں، اور وہ یورپی سرحدوں کی طرف بڑھیں گے۔ انہوں نے خاص طور پر ان ممالک کا ذکر کیا جو کبھی سوویت یونین کا حصہ تھے، جن میں ایسٹونیا، لٹویا، اور لیتھوانیا شامل ہیں، اور کہا کہ ان ممالک کے لیے یہ ایک سنگین فوجی خطرہ ہے۔

چانسلر میرس نے مزید کہا کہ یہ صورت حال یورپ کو اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مزید مضبوط کرنے کا تقاضا کرتی ہے تاکہ روس کی بڑھتی ہوئی جارحیت کا مقابلہ کیا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ یورپ کو اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ اس وقت کا عالمی منظرنامہ صرف ایک روایتی جنگ نہیں بلکہ ایک جغرافیائی سیاسی تبدیلی ہے، جس کا اثر پورے یورپ اور عالمی امن پر پڑ سکتا ہے۔

میاہوں کی جنگ میں روسی پیش قدمی اور اس کی عالمی سیاست میں ممکنہ تبدیلیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے میرس نے کہا کہ یورپی ممالک کو اس صورت حال کے بارے میں یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے یوکرین کو مکمل شکست کی اجازت دی، تو یہ پورے یورپ کے لیے سنگین نتائج کا سبب بن سکتا ہے۔

چانسلر میرس نے اس موقع پر یوکرین کے لیے جاری عالمی حمایت پر زور دیا اور کہا کہ یہ ضروری ہے کہ یوکرین کی جنگ کو سفارتی اور عسکری دونوں سطحوں پر حل کیا جائے۔ انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ یورپی ممالک کو اپنے دفاعی وسائل میں سرمایہ کاری بڑھانی ہوگی اور نیٹو کو مزید فعال رکھنا ہوگا تاکہ روسی جارحیت کا مقابلہ کیا جا سکے۔

یوکرین کی جنگ کے لیے عالمی سفارتی کوششیں تیز

جرمن چانسلر کے اس بیان کے بعد عالمی سطح پر یوکرین کی جنگ کے خاتمے کے لیے سفارتی کوششیں مزید تیز ہو گئی ہیں۔ اس سلسلے میں، امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف اس ہفتے کے آخر میں برلن کا دورہ کریں گے۔ ان کا مقصد یوکرینی صدر وولودیمیر زیلینسکی اور یورپی رہنماؤں سے ملاقاتیں کرنا ہے تاکہ یوکرین کی حمایت میں اضافہ کیا جا سکے اور جنگ کے حل کے لیے نئے سفارتی راستے تلاش کیے جا سکیں۔

اگرچہ چانسلر میرس نے ان مذاکرات کے لیے کسی مخصوص توقعات کا ذکر نہیں کیا، تاہم انہوں نے چار اہم ترجیحات کا ذکر کیا جن پر بات چیت کی جائے گی۔ ان ترجیحات میں سب سے پہلی یوکرین کی مسلسل حمایت ہے، تاکہ وہ جنگ کے دوران اپنے موقف کو مضبوط رکھ سکے۔ دوسری ترجیح یورپی اتحاد کی مضبوطی ہے تاکہ روس کے خلاف متحدہ موقف اختیار کیا جا سکے۔ تیسری ترجیح یورپ کی دفاعی صلاحیتوں میں سرمایہ کاری اور چوتھی ترجیح نیٹو کو فعال رکھنا ہے تاکہ اس کی موجودگی یورپ میں کسی بھی روسی جارحیت کا مؤثر جواب دے سکے۔

نیٹو اور یورپی دفاعی صلاحیتوں کی ضرورت

چانسلر میرس نے کہا کہ یورپ کے لیے اب یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے دفاعی وسائل میں اضافہ کرے اور نیٹو کے ذریعے ایک مشترکہ دفاعی پوزیشن اختیار کرے تاکہ روس کی بڑھتی جارحیت کا مؤثر جواب دیا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر یورپ نے اپنے دفاعی نظام کو مضبوط نہیں کیا، تو یہ پورے براعظم کے لیے ایک سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔

پیوٹن کا ممکنہ اگلا قدم

اس وقت جب کہ یوکرین کی جنگ کے خاتمے کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں، اور روس کی فوجی طاقت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، بین الاقوامی برادری کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی پیش قدمی کے پیچھے صرف یوکرین کا معاملہ نہیں بلکہ پورے یورپ کا مستقبل چھپا ہوا ہے۔ چانسلر میرس نے اپنی تقریر میں اس بات پر زور دیا کہ روس کی جارحیت کو روکنے کے لیے عالمی سطح پر ایک جامع اور مضبوط حکمت عملی اپنائی جانی چاہیے، جس میں تمام یورپی ممالک کی شمولیت اور عالمی طاقتوں کا تعاون شامل ہو۔

خلاصہ:

جرمن چانسلر فریڈرش میرس کے حالیہ انتباہات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یوکرین کی جنگ صرف ایک علاقائی مسئلہ نہیں بلکہ عالمی سطح پر روس کی جارحیت کو روکنے کے لیے ایک بڑی جنگ ہے۔ اگر روس کو یوکرین میں کامیابی حاصل ہوتی ہے تو اس کا اثر یورپ کے دیگر ممالک پر بھی پڑے گا، خاص طور پر ان ممالک پر جو کبھی سوویت یونین کا حصہ تھے۔ یورپ کو اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط کرنا ہوگا اور نیٹو کے ذریعے ایک مضبوط اور یکجا دفاعی حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی تاکہ روس کے بڑھتے ہوئے خطرے کا مقابلہ کیا جا سکے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button