
‘علیحدگی پسندوں’ کو تنبیہ، تائیوان کے قریب چین کی فوجی مشقیں
چین کی خودمختاری اور قومی اتحاد کے تحفظ کے لیے یہ ایک جائز اور ضروری اقدام ہے
چین کی فوج نے ابتدا میں صرف اتنا کہا تھا کہ "جسٹ مشن 2025” کے نام سے ہونے والی یہ فوجی مشقیں منگل سے شروع ہوں گی، جس میں لائیو فائر مشقیں شامل ہوں گی۔ تاہم بعد میں پیر کے روز فوج نے بتایا کہ اس نے پہلے ہی "تائیوان کے شمال اور جنوب مغرب میں سمندری اہداف پر لائیو فائر مشقیں کی ہیں۔”
چین کی ایسٹرن تھیٹر کمانڈ کے ترجمان شی یی نے ایک بیان میں کہا، "یہ ‘تائیوان کی آزادی’ علیحدگی پسند قوتوں اور مداخلت پسند بیرونی قوتوں کے لیے ایک سنگین تنبیہ کے طور پر کام کرتی ہیں، چین کی خودمختاری اور قومی اتحاد کے تحفظ کے لیے یہ ایک جائز اور ضروری اقدام ہے۔”
چین کی سرکاری ویب سائٹ ویبو پر ایک پوسٹ میں چینی فوج کی ایسٹرن تھیٹر کمانڈ کے سربراہ نے اس فوجی مشق کو "انصاف کی ڈھال” قرار دیا اور کہا، "اس ڈھال کا سامنا کرنے پر آزادی کی سازش کرنے والے تمام لوگ فنا ہو جائیں گے!”
تائیوان کا ‘جمہوریت اور خودمختاری’ کے تحفظ کا عزم
اس دوران تائیوان کے صدر ولیم لائی چنگ تے نے چین پر زور دیا کہ وہ، "صورتحال کا غلط اندازہ نہ لگائے اور خطے میں مسئلہ پیدا کرنے والا بھی نہ بنے۔”
صدارتی ترجمان کیرن کوؤ نے ایک بیان میں کہا، "چینی حکام کی جانب سے بین الاقوامی اصولوں کو نظر انداز کرنے اور پڑوسی ممالک کو دھمکانے کے لیے فوجی دھونس کے رد عمل میں، تائیوان اپنی سخت مذمت کا اظہار کرتا ہے۔”

تائیوان کی وزارت دفاع نے پیر کی صبح ایک بیان میں کہا کہ اس نے گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران جزیرے کے آس پاس گشت کرنے والے دو چینی طیاروں اور 11 بحری جہازوں کا پتہ لگایا ہے۔ چین نے بھی تصدیق کی ہے کہ اس کی مشرقی افواج کی کمان آبنائے تائیوان میں سرگرم عمل ہے۔
تائیوان کی وزارت دفاع نے یہ بھی کہا کہ اس نے ایک ریپڈ رسپانس سینٹر قائم کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی اس نے تائیوان میں "جمہوریت، آزادی، خودمختاری اور حفاظت” کے عزم کا اظہار کیا۔
تائیوان کی فوج نے کہا، "ردعمل کے لیے ایک سینٹر قائم کر دیا گیا ہے اور مناسب فورسز کو تعینات کر دیا گیا ہے۔” فوج نے مزید کہا کہ اس کی مسلح افواج نے بھی "تیز رفتار ردعمل کے لیے مشقیں کی ہیں۔”
چین اور جاپان کے درمیان بڑھتی کشیدگی
تائیوان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے جمہوری طرز کی حکومت ہے، لیکن چین اسے ایک علیحدگی پسند صوبہ سمجھتا ہے اور طویل عرصے سے اس عزم کا اظہار کرتا رہا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ اسے طاقت کے ذریعے بھی دوبارہ حاصل کر لے گا۔
جاپان کی نئی قوم پرست وزیر اعظم سانائے تاکائیچی نے تائیوان سے متعلق بعض ایسے بیانات دیے تھے، جس پر بیجنگ نے سخت غصے کا اظہار کیا اور اس کے بعد پیر کے روز سے یہ فوجی سرگرمیاں شروع ہوئی ہیں۔
جاپانی وزیر اعظم کے بیان سے لگا کہ تائیوان کے خلاف کوئی بھی چینی کارروائی "بقا کے لیے خطرے والی صورتحال” پیدا کر سکتی ہے، اور جاپانی قانون کے تحت یہ ایک ایسی صورتحال ہے، جس سے فوجی مداخلت کا دروازہ کھل جاتا ہے۔
چین کی یہ مشقیں ایک ایسے وقت بھی شروع ہوئی ہیں، جب امریکہ نے ابھی حال ہی میں تائیوان کے لیے اب تک کے اپنے سب سے بڑے ہتھیاروں کی فروخت کا اعلان کیا۔ اس سودے کی مالیت تقریبا سوا گیارہ بلین ڈالر ہے۔
چین کی فوج نے ماضی میں بھی تائیوان کے ارد گرد لائیو فائر مشقیں کی ہیں اور اس نے بندرگاہوں کی ناکہ بندی کی مشق بھی کی ہے۔ تاہم پیر کے روز اس نے پہلی بار اعلانیہ کہا کہ ان مشقوں کا مقصد بیرونی فوجی مداخلت کا "ڈیٹرنس” ہے۔
چین ایک طویل عرصے سے تائیوان کے ساتھ "پرامن اتحاد” کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ بیجنگ کے پاس اس حوالے سے ایک قانون بھی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ضرورت پڑنے پر وہ جزیرے کی "علیحدگی” کو روکنے کے لیے "غیر پرامن ذرائع” کا سہارا بھی لے گا۔
بیجنگ نے تائیوان کے صدر لائی چنگ تی پر "تائیوان کی آزادی” کی پیروی کرنے کا الزام بھی لگایا ہے، جبکہ صدر کا کہنا ہے کہ تائیوان پہلے سے ہی ایک خودمختار ملک ہے اور اس لیے اسے باضابطہ طور پر آزادی کا اعلان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔



