
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق جج اسلام آباد ہائیکورٹ شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔منگل کو چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ جس میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس عرفان سعادت بھی شامل ہیں، نے مقدمے کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران عدالت نے فریقین سے کہا کہ عدالتی کارروائی کے دوران اٹھائے گئے سوالات پر تحریری جوابات جمع کرائیں۔اس موقع پر استفسار کیا گیا کہ ’شوکت عزیز کی عمر 30 جون 2021 کو 62 سال مکمل ہو چکی، اب اپیل منظور ہوئی تو کیا ریلیف دیا جا سکتا ہے، کیا سپریم کورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو معاملہ دوبارہ بھیج سکتی ہے، اگر کونسل کی کارروائی کی ضرورت نہیں تو کیا شوکت صدیقی کی تقریر بذات خود کوڈ آف کنڈکٹ کے خلاف نہیں؟‘چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’اس مقدمے میں تحریری جوابات جمع کرانے کے لیے کتنا وقت درکار ہے، انہوں نے یہ بھی پوچھا کہ یہ تقریر شہرت کے لیے کی گئی یا نہیں یہ الزام بھی ہے۔‘شوکت عزیز صدیقی کے وکیل ایڈوکیٹ حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل کی کارروائی غیر آئینی قرار دے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ہم ایک سکے کو ہوا میں پھینک کر فیصلہ نہیں کر سکتے، اگر الزامات سچ ثابت نہیں ہوتے تو کیا ہوگا، اگر یہ طے نہیں ہوتا کہ الزامات سچے ہیں یا جھوٹے، اس کے بغیر ہم کس طرف جا سکتے ہیں، لیکن ہم ان کیسز کے ذریعے مثال قائم کرنا چاہتے ہیں، الزامات عوامی سطح پرلگائے گئے اگر الزامات غلط ثابت ہوتے ہیں انکوائری کے بعد تو کیا جج کو ہٹانے کا فیصلہ برقرار رہے گا؟‘’ہم نے جن پر الزامات لگایا گیا ان کو فریق بنانے کا کہا، سچ کی کھوج کون لگائے گا اب، ہم مسئلے کا حل ڈھونڈ رہے ہیں، دوسری طرف سے یہ بات ہو سکتی ہے کہ الزامات کو پرکھا ہی نہیں گیا۔‘وکیل شوکت صدیقی نے بتایا کہ حل یہ ہے کہ کونسل کی کارروائی اور صدر مملکت کی جانب سے جج کو ہٹانے کی کارروائی کالعدم قرار دی جائے۔ سپریم کورٹ شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کے لیے کمیشن تشکیل دے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ہم کیسے کمیشن تشکیل دیں، کیا ہم معاملہ دوبارہ کونسل کو بھیج دیں، دونوں میں سے کوئی سچ نہیں بتا رہا۔‘ جبکہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ صرف پبلک تقریر کو دیکھا جا سکتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدلیہ کی خود مختاری اور جوڈیشل کونسل کا سوال ہے، کونسل کی کارروائی قانون کے مطابق ہونی چاہیے، کونسل کی کارروائی میں تقاضے پورے نہیں کیے گئے، سپریم کورٹ ان حالات میں کیسا فیصلہ دے سکتی ہے، اٹارنی جنرل سے بھی پوچھ لیں۔ دوران سماعت جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا ایک جج کو ایسی تقریر کرنی چاہیے تھی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ہم حقائق کو بھی نظرانداز نہیں کر سکتے، ججز بار ایسوسی ایشن میں جاکر تقاریر کرتے ہیں، سوال تقریر کا نہیں بلکہ تقریر میں کی گئی گفتگو اصل معاملہ ہے، آرٹیکل 19ججز کے لیے نہیں ہے، ججز کا کوڈ آف کنڈکٹ تقاریر کی اجازت نہیں دے سکتا، امریکا میں تو ججز بحث و مباحثہ میں حصہ لیتے ہیں۔‘چیف جسٹس نے کہا کہ ’کیا ہم خود انکوائری کروا سکتے ہیں، بلاوجہ الزام لگانا کسی حکومت کے ماتحت ادارے پر بھی اچھی بات نہیں، جس پر الزام لگایا گیا، میں اسے ادارہ نہیں بلکہ حکومت کے ماتحت ادارہ کہوں گا۔‘ وکیل شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ پوری انکوائری کالعدم قرار دے کر معاملہ دوبارہ کونسل کو بھیجا جائے، جس پر چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا سپریم کورٹ ایسا کر سکتی ہے۔ وکیل شوکت عزیز صدیقی نے بتایا کہ کونسل نے مکمل انکوائری ہی نہیں کی۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کے وکیل نے کہا کہ معاملہ دوبارہ کونسل کو نہیں بھیجا جا سکتا کیونکہ شوکت عزیز صدیقی کی بطور جج مدت بھی ختم ہو چکی، جو الزامات لگائے گئے وہ باتیں نہ کونسل کے جوابات میں کہی گئیں نہ ہی تقریر میں آئیں، شوکت عزیز صدیقی کی اپنی تقریر ہی کافی ہے کہ انھوں نے مس کنڈکٹ کا مظاہرہ کیا اور تقریر میں عدلیہ کی تضحیک کی گئی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’تقریر کر کے کیسے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کی اور متعلقہ شق دکھائیں، آپ ججز کا کوڈ آف کنڈکٹ پڑھ لیں۔ تقریر کو پبلسٹی نہیں بلکہ نشاندہی کرنے والے کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے، اگر ایک ادارے میں کرپشن ہو تو کسی جج کو کیا کرنا چاہیے۔‘ وکیل فیض حمید نے بتایا کہ اسے اپنے چیف جسٹس کو بتانا چاہیے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’کسی چیف جسٹس کی بات تسلیم کرنے اور کسی جج کی بات تسلیم نہ کرنے کا کوئی معیار تو ہونا چاہیے، قوم اب کافی کچھ برداشت کر چکی ہے، ہماری تشویش ادارے کی ساکھ سے متعلق ہے، قوم کو سچ کا علم ہونا چاہیے، کیا آپ نہیں چاہتے سچ سامنے آنا چاہیے، ہم کارروائی کو کیسے آگے بڑھائیں۔‘ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ ازخود نوٹس لے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’جوڈیشل کونسل نے تو بغیر کارروائی کیے جج کو ہٹا دیا، اگر کوئی جج مجھے پسند نہیں تو کیا اسے بغیر انکوائری ایسے ہٹایا جاسکتا ہے، اگر کسی کی آنکھوں کے سامنے قتل ہو تو تب بھی قانونی طریقہ کار اپنایا جاتا ہے اور قانونی تقاضے پورے کرنا لازم ہے۔ تمام فریقین تسلیم کر رہے ہیں مکمل انکوائری نہیں ہوئی، جب کسی جج کے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو پوچھا جاتا ہے اسکا شفاف ٹرائل کا حق کہاں جائے گا۔‘ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل میں کہا کہ ’شوکت عزیز صدیقی کو بغیر انکوائری ہٹانا طے شدہ قانونی تقاضوں کے منافی ہے، عافیہ شہر بانو کیس میں کہا گیا جب جج کو ہٹایا جائے یا استعفیٰ دے دیا جائے تو کارروائی نہیں ہو سکتی۔‘’ہم نے جج کو ہٹانے یا استعفا دینے پر کارروائی نہ کرنے کی پابندی کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی ہے، سپریم کورٹ عافیہ شہر بانوں کیس پر نظرثانی کرے، میری استدعا ہے کہ اس کیس کو بھی عافیہ شہر بانوں کیس کے تناظر میں دیگر کیسز کے ساتھ منسلک کیا جائے۔‘سپریم کورٹ نے شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔