مشرق وسطیٰ

لاہور نجی تعلیمی ادارے میں مبینہ زیادتی کا شکار طالبہ کی تلاش،سکیورٹی گارڈبھی حراست میں

پولیس کے مطابق گزشتہ جمعے کو فیس بک پر ایک پوسٹ کی گئی جس میں کہا گیا کہ پنجاب گروپ آف کالجز کی گلبرگ برانچ میں ایک طالبہ کا سکیورٹی گارڈ کی جانب سے مبینہ ریپ کا کیا گیا ہے۔

لاہور (نمائندہ خصوصی):‌پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور کی پولیس کو ایک نجی تعلیمی ادارے میں مبینہ ریپ کا شکار ہونے والی لڑکی اور اس کے گھر والوں کی تلاش ہے۔
یہ بات ڈی آئی جی آپریشن لاہور فیصل کامران نے پیر کی سہ پہر ایک پریس کانفرنس میں کہی ہے۔
پولیس کے مطابق گزشتہ جمعے کو فیس بک پر ایک پوسٹ کی گئی جس میں کہا گیا کہ پنجاب گروپ آف کالجز کی گلبرگ برانچ میں ایک طالبہ کا سکیورٹی گارڈ کی جانب سے مبینہ ریپ کا کیا گیا ہے۔
اس پوسٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ لڑکی کو زخمی حالت میں ایک نجی ہسپتال ایور کئیر میں علاج کی غرض سے داخل کروایا گیا ہے۔

لاہور پولیس نے اس پوسٹ کے بعد ہسپتال کا سارا ریکارڈ قبضے میں لے لیا ہے تاہم اس مبینہ ریپ کا شکار لڑکی کا ابھی تک پولیس سراغ لگانے میں ناکام ہے۔
دوسری جانب پیر کو ہی کالج کے طلبہ و طالبات نے اس مبینہ ریپ کے خلاف احتجاج شروع کر دیا اور کالج کی عمارت میں توڑ پھوڑ کی اور آگ لگائی۔
طلبہ کے احتجاج کو پہلے سکیورٹی گارڈز نے روکنے کی کوشش کی، بعدازاں پولیس طلب کر لی گئی۔
طلبہ اور پولیس میں ہونے والی مڈبھیڑ میں ریسیکیو 1122 کے مطابق 27 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

ڈی آئی جی آپریشن فیصل کامران کا کہنا ہے کہ ’ابھی تک متاثرہ لڑکی کے بارے میں سوائے سوشل میڈیا کے کہیں سے کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ طلبہ احتجاج کرنے کے بجائے متاثرہ لڑکی تک پہنچنے میں مدد کریں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’طلبہ کے پتھراؤ سے ایس پی ماڈل ٹاؤن اور اے ایس پی ماڈل ٹاؤن سمیت کئی پولسی اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ تاہم پولیس طلبہ پر سختی نہیں کر رہی۔‘
پولیس نے اس سکیورٹی گارڈ کو بھی حراست میں لے لیا ہے جس پر مبینہ ریپ کا الزام لگایا گیا تھا۔
پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر متاثرہ لڑکی سامنے نہیں آنا چاہتی تو بھی پولیس اپنی مدعیت میں مقدمہ درج کرنے کو تیار ہے تاہم واقعے کی تصدیق ہونے تک کوئی قانونی کارروائی شروع نہیں ہو سکتی۔

کالج کا موقف
دوسری جانب پنجاب کالج کی پرنسپل کی جانب سے پیر کو جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’پنجاب کالج میں پیدا ہونے والی صورتِ حال صرف سوشل میڈیا کا شاخسانہ ہے۔‘
بیان میں کہا گیا کہ ’ابھی تک والدین یا کسی سرپرست نے اس حوالے سے ایسی کوئی شکایت درج نہیں کرائی اور نہ ہی پولیس سٹیشن میں واقعہ کو رپورٹ کیا گیا ہے۔‘
کالج کا دعویٰ ہے کہ ’سوشل میڈیا پر ہونے والا منفی پروپیگنڈا بغیر کسی ثبوت کے چند شرپسند عناصر کی کارروائی ہے۔‘

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button