اداریہ

لڑائیاں منافع بخش بھی ہوتی ہیں؟…..سید عاطف ندیم

گزشتہ دہائیوں میں ہم نے ہر جھڑپ کے بعد عالمی برادری سے ہمدردی کی درخواست کی، خود کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کی، اور سفارتی محاذ پر دفاعی پوزیشن لی

لڑائی کا لفظ سنتے ہی ہمارے ذہن میں بارود کی بو، زخمیوں کی چیخیں، اور سرحد پار گرتے گولوں کی گھن گرج گونجنے لگتی ہے۔ انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جنگوں نے شہروں کو کھنڈرات میں بدلا، نسلوں کو اجاڑا، اور تہذیبوں کو مٹی میں ملا دیا۔ تو پھر یہ سوال کیوں؟ کیا واقعی لڑائیاں منافع بخش بھی ہو سکتی ہیں؟
یہ سوال ہمیں ایک بار پھر سوچنے پر مجبور کرتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب حالیہ پاک-بھارت جھڑپ کے بعد پاکستان میں ایک نئی فضا نے جنم لیا ہے۔ ایک ایسی فضا جو صرف عسکری برتری کا اظہار نہیں، بلکہ ایک نئے عزم، نئی سوچ اور نئی سمت کا پتا دیتی ہے۔
لائن آف کنٹرول پر ہونے والی اس تازہ جھڑپ نے ایک بار پھر اس حقیقت کو عیاں کر دیا کہ پاکستان اب 90 کی دہائی والا پاکستان نہیں رہا۔ نہ وہ پالیسی، نہ وہ کمزور سفارتی ڈھانچے، اور نہ ہی وہ عالمی تنہائی۔ اس بار ردعمل فوری تھا، مگر جذباتی نہیں۔ مضبوط تھا، مگر غیر ذمے دار نہیں۔ اور سب سے بڑھ کر، عالمی سطح پر سنجیدگی سے سنا گیا۔
گزشتہ دہائیوں میں ہم نے ہر جھڑپ کے بعد عالمی برادری سے ہمدردی کی درخواست کی، خود کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کی، اور سفارتی محاذ پر دفاعی پوزیشن لی۔ لیکن اب کی بار بیانیہ بدلا ہوا ہے۔ پاکستان نے اپنی خود مختاری اور دفاعی طاقت کو جس اعتماد سے پیش کیا، وہ صرف دشمن کے لیے ہی نہیں بلکہ اپنوں کے لیے بھی حیران کن تھا۔
کیا یہ جھڑپ "نیا پاکستان” بننے کی نوید بن گئی ہے؟ شاید ہاں۔ کیونکہ اس کے بعد ہم نے صرف سرحد پر نہیں، ذہنوں میں بھی تبدیلی دیکھی۔ سوشل میڈیا پر نوجوانوں کا لب و لہجہ بدل گیا، قومی پرچم کی قیمت ایک بار پھر دلوں میں جگہ بنانے لگی، اور سب سے اہم، قوم نے اپنی افواج پر ایک بار پھر اعتماد کرنا شروع کر دیا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی دفاعی صنعت، خاص طور پر JF-17 تھنڈر طیارے، دنیا کی توجہ حاصل کر رہے ہیں۔ عالمی میڈیا کی مثبت کوریج اور چند عرب و افریقی ممالک کی دلچسپی اس بات کا اشارہ ہے کہ "قومی وقار” اب صرف نعرہ نہیں بلکہ "نیشنل برانڈ” بنتا جا رہا ہے۔
سفارتی سطح پر بھی پاکستان نے پہلی بار جارحانہ سفارت کاری کی جھلک دکھائی۔ الزامات کے جواب میں وضاحت نہیں، بلکہ حقائق، ثبوت، اور بین الاقوامی قوانین کا حوالہ دیا گیا۔
تاریخ گواہ ہے کہ کئی قومیں ایک جھڑپ، ایک جنگ، یا ایک معرکے کے بعد بیدار ہوئیں۔ جاپان، جرمنی، جنوبی کوریا، اور ترکی — یہ سب مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ پاکستان کے لیے یہ لمحہ بھی وہی ہو، اگر ہم اس موقع کو گنوا نہ دیں۔
اختتامیہ: فائدہ یا سبق؟
تو کیا لڑائیاں واقعی منافع بخش ہوتی ہیں؟ اگر مقصد صرف فتوحات ہو تو شاید نہیں، لیکن اگر ہر جھڑپ ہمیں متحد کرتی ہے، خود اعتمادی دیتی ہے، سوچنے پر مجبور کرتی ہے، اور نئے راستے دکھاتی ہے — تو پھر شاید ہاں۔
لیکن یاد رکھیے، اصل فتح بندوق سے نہیں، سوچ سے ہوتی ہے۔ اور اگر ہم نے اس جھڑپ کو ایک نیا آغاز بنا لیا، تو پھر یہ صرف ایک فوجی کامیابی نہیں، بلکہ "نئے پاکستان” کا پہلا قدم ہو سکتا ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button