بین الاقوامیاہم خبریں

تل ابیب میں ہزاروں اسرائیلیوں کا مظاہرہ: صدر ٹرمپ سے غزہ جنگ رکوانے اور قیدیوں کی رہائی کی اپیل

"ٹرمپ کی میراث شکستگی کا شکار ہے کیونکہ غزہ جنگ جاری ہے۔"

بین الاقوامی ڈیسک

تل ابیب: اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں ہفتے کی رات ہزاروں شہری سڑکوں پر نکل آئے، جنہوں نے غزہ میں جاری جنگ کے خلاف شدید احتجاج کرتے ہوئے امریکہ اور خصوصاً سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے فوری مداخلت کی اپیل کی۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ ٹرمپ اپنی بین الاقوامی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور جنگ بندی کے لیے کردار ادا کریں۔


’ٹرمپ، قیدیوں کو بچائیں‘ — مظاہرین کے پلے کارڈز

تل ابیب کے فوجی ہیڈکوارٹر کے باہر منعقدہ ریلی میں مظاہرین نے اسرائیلی پرچم لہرائے اور ایسے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر قیدیوں کی تصاویر اور ان کی بازیابی کے مطالبات درج تھے۔ ایک پلے کارڈ پر لکھا تھا:

"ٹرمپ کی میراث شکستگی کا شکار ہے کیونکہ غزہ جنگ جاری ہے۔”

ایک اور پلے کارڈ میں واضح اپیل کی گئی:

"صدر ٹرمپ، قیدیوں کو ابھی بچائیں!”


ٹرمپ سے مداخلت کی امید، نیتن یاہو پر تنقید

مظاہرے میں شریک 40 سالہ بواز نے کہا:

"ہم سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ دنیا میں واحد شخصیت ہیں جو بی بی (نیتن یاہو) پر دباؤ ڈال سکتے ہیں اور انہیں قیدیوں کی رہائی پر مجبور کر سکتے ہیں۔”

ریلی میں وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو کے خلاف نعرے بازی بھی کی گئی، اور ان پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ ذاتی مفادات اور سیاسی مقاصد کی خاطر جنگ کو طول دے رہے ہیں، جس سے قیدیوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ گئی ہیں۔


قیدیوں کے اہلِ خانہ میں شدید تشویش

اسرائیلی حکام کے مطابق غزہ شہر میں کئی اسرائیلی قیدی موجود ہیں اور اب جبکہ اسرائیلی فوج نے وہاں بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی کا آغاز کیا ہے، قیدیوں کے اہل خانہ کو خوف ہے کہ ان کے پیارے اس کارروائی میں ہلاک ہو سکتے ہیں۔

اورنا نیوٹرا، جن کا فوجی بیٹا 7 اکتوبر 2023 کو ہلاک ہوا اور جس کی لاش غزہ میں ہے، نے حکومت پر شدید تنقید کی۔ انہوں نے کہا:

"حکومت نے ہمیں تنہا چھوڑ دیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ امریکہ آخرکار ایک ایسا معاہدہ کرائے گا جس کے نتیجے میں قیدی واپس آ سکیں۔”


ریلی کا دائرہ کار وسیع، یروشلم میں بھی مظاہرے

تل ابیب کی ہفتہ وار ریلیوں کا حجم مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اس بار منتظمین کے مطابق دسیوں ہزار افراد نے شرکت کی، جبکہ یروشلم سمیت دیگر شہروں میں بھی بڑے مظاہرے دیکھنے میں آئے۔

مظاہرین کا متفقہ مطالبہ تھا کہ:

"حکومت فوری طور پر حماس سے جنگ بندی کرے تاکہ قیدیوں کی زندگیوں کو بچایا جا سکے۔”


ٹرمپ کی صدارتی مہم اور غزہ جنگ

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ صدر منتخب ہونے کے بعد غزہ میں جنگ جلد از جلد ختم کروائیں گے۔ تاہم صدارت کا آٹھواں مہینہ گزرنے کے باوجود اب تک کوئی حتمی پیش رفت سامنے نہیں آ سکی۔

گزشتہ جمعہ کو انہوں نے بیان دیا کہ:

"واشنگٹن حماس سے بہت گہرے مذاکرات میں مصروف ہے۔”

یہ بیان قیدیوں کے اہل خانہ کے لیے کسی حد تک امید کا پیغام ضرور تھا، لیکن عملی نتائج تاحال سامنے نہیں آ سکے۔


غزہ میں انسانی بحران، فوجی کارروائیاں جاری

اسرائیلی افواج نے غزہ شہر اور اس کے مضافات میں شدید بمباری کی ہے۔ فوج نے شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ شہر سے نکل کر جنوبی علاقوں کی طرف چلے جائیں۔
غزہ شہر، جو جنگ سے قبل تقریباً 10 لاکھ افراد کا مسکن تھا، اب قحط، بے گھر افراد اور تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے کا منظر پیش کر رہا ہے۔

انسانی حقوق کے ادارے خبردار کر چکے ہیں کہ غزہ میں قحط اور انسانی المیہ پیدا ہو چکا ہے، جبکہ اسرائیلی حکومت اس کی شدت سے انکار کرتی ہے۔


قیدیوں کی ویڈیوز، نفسیاتی جنگ یا حقیقت؟

حماس کی جانب سے جاری کردہ ایک تازہ ویڈیو میں 24 سالہ اسرائیلی قیدی گائے گلبوا نے بتایا کہ وہ غزہ شہر میں قید ہے اور فوجی کارروائی کے باعث اس کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے۔

اسرائیلی حکام نے ان ویڈیوز کو "نفسیاتی جنگ” کا حصہ قرار دیا ہے، جبکہ انسانی حقوق کے اداروں نے انہیں "غیر انسانی اور جنگی قوانین کے خلاف” قرار دیا۔


جنگ پر رائے عامہ اور سیاسی دباؤ

اسرائیل میں رائے عامہ جنگ کے خلاف جا رہی ہے۔ تازہ سروے ظاہر کرتے ہیں کہ:

  • اکثریت اسرائیلی شہری نیتن یاہو کی دائیں بازو کی حکومت سے مطمئن نہیں۔

  • لوگ چاہتے ہیں کہ قیدیوں کی رہائی کے لیے حماس سے مذاکرات کیے جائیں۔

  • "سب کچھ یا کچھ نہیں” جیسا سخت مؤقف قیدیوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال رہا ہے۔

48 سالہ ایڈم، ایک مظاہرین، کا کہنا تھا:

"یہ واضح ہو گیا ہے کہ فوجیوں کو بلامقصد جنگ کے لیے بھیجا جا رہا ہے۔”


حماس کی پیشکش، نیتن یاہو کی ضد

حماس نے ہفتے کے روز اعلان کیا کہ اگر اسرائیل جنگ ختم کر دے اور اپنی فوجیں غزہ سے نکال لے تو وہ تمام اسرائیلی قیدیوں کو رہا کر دے گی۔

تاہم وزیر اعظم نیتن یاہو اصرار کر رہے ہیں کہ:

"ہم سب قیدیوں کی ایک ساتھ رہائی چاہتے ہیں، اور اس وقت تک کوئی امن معاہدہ نہیں ہوگا جب تک حماس مکمل طور پر ہتھیار نہ ڈالے۔”

حماس نے تسلیم کیا ہے کہ وہ جنگ کے بعد غزہ کی حکومت نہیں کرے گی، لیکن اس نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا ہے۔


امن کی تلاش، دباؤ کی شدت

تل ابیب اور یروشلم میں بڑھتے مظاہرے اس بات کی علامت ہیں کہ اسرائیلی عوام جنگ سے تھک چکے ہیں، اور وہ ایک ایسے حل کی تلاش میں ہیں جو قیدیوں کی رہائی اور علاقے میں دیرپا امن کا ضامن ہو۔

امریکی قیادت، خاص طور پر صدر ٹرمپ، پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ صرف بیانات تک محدود نہ رہیں بلکہ حقیقی ثالثی کا کردار ادا کریں۔

آنے والے دنوں میں اگر کوئی امن معاہدہ نہیں ہوتا تو داخلی سیاسی بحران، عوامی بے چینی اور بین الاقوامی تنقید اسرائیل کے لیے مزید مسائل پیدا کر سکتی ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button