پاکستاناہم خبریں

"طالبان حکومت نے دہشت گردی کے اصل مسئلے کو حل کرنے کے بجائے اسے دیگر فرضی معاملات کے ساتھ الجھانے کی کوشش کی،دفتر خارجہ

"پاکستان برادر ممالک ترکی اور قطر کی جانب سے کی جانے والی مخلصانہ کوششوں کو سراہتا ہے"

سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ

پاکستان اور افغانستان کے درمیان استنبول میں ہونے والے امن مذاکرات کا تیسرا دور ترکی اور قطر کی ثالثی میں جمعے کے روز اختتام پذیر ہوگیا۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کے مطابق، مذاکرات کا مقصد افغان سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی کے مسئلے کا حل تلاش کرنا تھا، تاہم افغان طالبان حکومت کی غیر سنجیدگی اور الزام تراشی کی روش نے مذاکراتی عمل کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔

ترجمان نے اپنے تفصیلی بیان میں کہا کہ "پاکستان برادر ممالک ترکی اور قطر کی جانب سے کی جانے والی مخلصانہ کوششوں کو سراہتا ہے”، جنہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان جاری تناؤ کو کم کرنے اور تعاون کو فروغ دینے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔

6 نومبر 2025 کو استنبول میں افغان طالبان حکومت کے ساتھ پاکستان کے مذاکرات کے حوالے سے میڈیا کے مختلف سوالات پر، ترجمان نے درج ذیل بیان دیا:

افغان سرزمین سے دہشت گرد حملوں میں اضافہ

پاکستان نے واضح کیا کہ گزشتہ چار سالوں کے دوران، جب سے طالبان حکومت کابل میں برسر اقتدار آئی ہے، پاکستان کو افغان سرزمین سے ہونے والے دہشت گرد حملوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ان حملوں میں درجنوں سویلین اور سیکورٹی اہلکار شہید ہوچکے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ پاکستان نے ان تمام برسوں میں تحمل کا مظاہرہ کیا اور حتیٰ کہ شدید اشتعال انگیزی کے باوجود فوجی کارروائیوں سے گریز کیا، اس امید پر کہ طالبان حکومت ان گروہوں کے خلاف اقدامات کرے گی جو پاکستان میں خونریزی کے ذمہ دار ہیں۔

پاکستان کی امن کوششیں اور افغان ردِ عمل

ترجمان کے مطابق، پاکستان نے افغان عوام کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے متعدد اقدامات کیے، جن میں دوطرفہ تجارتی مراعات، انسانی امداد، تعلیمی و طبی ویزوں کی سہولت، اور بین الاقوامی فورمز پر طالبان حکومت کے ساتھ عالمی روابط کی وکالت شامل تھی۔
تاہم، ان کے بقول، طالبان حکومت کی جانب سے ان کوششوں کا جواب "کھوکھلے وعدوں اور غیر حقیقی بیانات” کی صورت میں ملا۔ ترجمان نے کہا کہ "پاکستان کی بنیادی توقع ہمیشہ یہی رہی ہے کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف حملوں کے لیے استعمال نہ ہونے دیا جائے، مگر طالبان حکومت اس پر قابلِ عمل اقدامات کرنے سے گریزاں ہے۔”

دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ

پاکستان نے ایک بار پھر اس مؤقف کو دہرایا کہ TTP (تحریکِ طالبان پاکستان)، FaK، BLA (بلوچ لبریشن آرمی) اور FaH جیسی تنظیمیں پاکستان کے امن و استحکام کے لیے براہِ راست خطرہ ہیں۔
ترجمان کے مطابق، "جو کوئی بھی ان عناصر کو پناہ دیتا ہے، مدد فراہم کرتا ہے یا مالی معاونت کرتا ہے، وہ پاکستان اور اس کے عوام کا خیر خواہ نہیں ہو سکتا۔”

اکتوبر 2025 کے حملوں کے بعد پاکستان کا ردعمل

پاکستان نے اکتوبر 2025 میں افغانستان سے ہونے والے مسلسل دہشت گرد حملوں کے بعد جوابی کارروائی کی، جسے ترجمان نے "ریاست کی خودمختاری اور عوام کے تحفظ کے لیے ناگزیر اقدام” قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان امن اور سفارت کاری کا حامی ہے، لیکن قومی سلامتی کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔

مذاکرات کے تینوں ادوار کی تفصیلات

ترجمان نے بتایا کہ دوحہ میں ہونے والے پہلے دور میں کچھ بنیادی اصولوں پر اتفاق رائے ہوا تھا، جن کے تحت پاکستان نے عارضی جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی۔
استنبول میں دوسرے دور کا مقصد انہی اصولوں پر عمل درآمد کے طریقہ کار کو طے کرنا تھا، لیکن طالبان نمائندوں نے وعدوں سے انحراف کرتے ہوئے الزام تراشی شروع کردی اور زمینی سطح پر کوئی عملی اقدام نہیں کیا۔
تیسرے دور میں پاکستان نے ایک مؤثر مانیٹرنگ میکنزم (نگرانی کے نظام) کے قیام پر زور دیا تاکہ افغان سرزمین سے دہشت گرد عناصر کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جا سکے۔ تاہم افغان فریق نے اس مطالبے سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی اور مذاکراتی عمل کو فرضی مسائل کی طرف موڑ دیا۔

طالبان حکومت کی روش پر تشویش

پاکستانی ترجمان نے کہا کہ ثالثی کرنے والے ممالک اور مذاکراتی عمل پر نظر رکھنے والے تمام مبصرین اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ طالبان حکومت کا مقصد صرف عارضی جنگ بندی کو طول دینا ہے، نہ کہ دہشت گردی کے اصل مسئلے کا حل نکالنا۔
انہوں نے کہا کہ "افغان حکومت فرضی الزامات، لسانی بیان بازی اور میڈیا مہم کے ذریعے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔”

پاکستان کا عزم

ترجمان نے بیان کے اختتام پر کہا کہ پاکستان اپنے عوام کے تحفظ، سرحدی سلامتی اور قومی خودمختاری کے دفاع کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے گا۔ تاہم پاکستان امن، استحکام اور برادرانہ تعلقات کے فروغ کے لیے سفارت کاری اور مذاکرات پر یقین رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان ایک مستحکم، پرامن اور خوشحال ملک کے طور پر اُبھرے، جو اپنے ہمسایوں کے ساتھ خیرسگالی کے تعلقات قائم کرے۔”


تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ استنبول مذاکرات کا اختتام ایک بار پھر اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان اور طالبان حکومت کے درمیان اعتماد کا فقدان اب بھی برقرار ہے۔ اگرچہ ترکی اور قطر کی ثالثی کو مثبت قدم سمجھا جا رہا ہے، مگر اس وقت تک کوئی ٹھوس پیش رفت ممکن نہیں جب تک طالبان حکومت دہشت گرد تنظیموں کے خلاف واضح اور قابلِ تصدیق کارروائی نہیں کرتی۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button