
سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ
وزیر دفاع خواجہ آصف نے اتوار کو غزہ میں امن کے قیام کے لیے اسرائیل کی وابستگی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے، اور کہا کہ امن معاہدے کی حمایت کرنے والے مسلم ممالک کو ’اپنی پوزیشن پر دوبارہ غور کرنے‘ کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ وزیر دفاع نے اپنے بیان میں اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیاں علاقے میں امن کے قیام کی کوششوں کو سبوتاژ کر رہی ہیں۔
غزہ میں جنگ بندی اور اسرائیل کی بمباری:
وزیر دفاع خواجہ آصف نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ (سابقہ ٹویٹر) پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان 9 اکتوبر کو جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا، لیکن اسرائیل نے اس کے باوجود غزہ پر بمباری جاری رکھی، جس کی وجہ سے فلسطینیوں، بشمول بچوں، کی ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنگ بندی کا معاہدہ ایک طرفہ ہونے کا الزام اسرائیل پر لگایا جا رہا ہے، اور اسرائیلی افواج اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتی رہیں، جس کے نتیجے میں خطے میں امن کی کوششیں متاثر ہو رہی ہیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ اس معاہدے کا مقصد خطے میں استحکام لانا تھا، تاہم اسرائیل کے اقدامات نے اس کی وابستگی پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں اور عالمی برادری کے لیے یہ ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ وزیر دفاع نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ مسلم ممالک جو اس معاہدے کی حمایت کر چکے ہیں، بشمول ترکی، مصر اور قطر، کو اب اپنی پوزیشن پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔
ترک صدر کا موقف:
وزیر دفاع نے ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کا بھی ذکر کیا، جو پہلے ہی اس امن معاہدے کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔ اردوان نے کہا تھا کہ جنگ بندی کے معاہدے کو فلسطینی مسئلے کے حتمی حل کے طور پر نہیں سمجھا جانا چاہیے، کیونکہ اسرائیل کی جارحیت اور فلسطینیوں کیخلاف اقدامات میں کمی نہیں آئی ہے۔
پلسطینیوں کی ہلاکتیں اور عالمی ردعمل:
خواجہ آصف نے مزید کہا کہ جنگ بندی کے بعد سے کم از کم 352 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جب کہ تصادم کے آغاز سے اب تک غزہ میں 70,000 سے زائد فلسطینی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ انہوں نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے نسل کشی کے عمل میں کوئی کمی نہیں آئی ہے، اور بین الاقوامی برادری، خاص طور پر مغربی حکومتوں کو اسرائیل پر بین الاقوامی قانون کی پابندی کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے۔
غزہ امن معاہدہ اور مسلم ممالک کی شرکت:
امریکی ثالثی میں طے پانے والے غزہ امن معاہدے کی بنیاد بین الاقوامی استحکام فورس (آئی ایس ایف) کے قیام پر ہے، جو زیادہ تر مسلم اکثریتی ممالک کے فوجیوں پر مشتمل ہے۔ تاہم، وہ ممالک جو پہلے اس منصوبے کی حمایت کر چکے تھے، اب اسرائیل کی مسلسل خلاف ورزیوں اور غزہ میں جاری تشدد کے سبب تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
پاکستان کے وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے گزشتہ روز کہا تھا کہ پاکستان غزہ امن فورس میں فوجی تعینات کرنے کے لیے تیار ہے، لیکن وہ حماس کو غیر مسلح کرنے میں حصہ لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ پاکستان کا کام امن قائم رکھنا ہے، نہ کہ امن نافذ کرنا۔ انہوں نے کہا کہ حماس کو غیر مسلح کرنا فلسطینی قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ہے، نہ کہ پاکستان کا۔
پاکستان کا موقف:
پاکستان نے ہمیشہ فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھائی ہے اور اسرائیل کے اقدامات کو عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان امن کے قیام کے لیے ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کے لیے تیار ہے، تاہم جب تک اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی اور فلسطینیوں کے حقوق کا احترام نہیں کیا جاتا، تب تک ایسی کوششیں ناکام رہیں گی۔
اختتام:
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کا غزہ امن معاہدے پر اسرائیل کی وابستگی کے بارے میں بیان ایک نئی پیچیدگی کو ظاہر کرتا ہے جس میں اسرائیل کے اقدامات پر عالمی برادری کی شدید تنقید ہو رہی ہے۔ انہوں نے مسلم ممالک کو اس بات پر زور دیا کہ وہ اس معاہدے کے بارے میں اپنے موقف کا جائزہ لیں اور غزہ میں جاری تشدد کے پیش نظر نئے اقدامات اٹھائیں۔ اس وقت فلسطینی عوام کی حفاظت اور حقوق کے تحفظ کے لیے عالمی سطح پر مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔



