پاکستان پریس ریلیزاہم خبریں

پاکستان نے طالبان کی حکومت اور سرحدی کشیدگی کے نتیجے میں افغانوں کی بڑی تعداد کو بے دخل کردیا

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ "ہم مزید افغان پناہ گزینوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے۔"

وائس آف جرمنی اردو نیوز ، بین ا لاقوامی میڈیا کے ساتھ

پاکستان نے طالبان حکومت اور سرحدی کشیدگی کے بڑھتے ہوئے اثرات کو جواز بنا کر اس سال تقریباً 10 لاکھ افغانوں کو اپنے ملک سے بے دخل کردیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ افغان پناہ گزینوں کی موجودگی قومی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکی ہے، اور پاکستان نے اس سال اپنے ملک میں رہنے والے 30 لاکھ افغانوں میں سے تقریباً 10 لاکھ کو واپس افغانستان بھیج دیا ہے۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی جھڑپوں میں اضافہ ہوچکا ہے اور دونوں ممالک کی حکومتوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوچکے ہیں۔

پاکستان نے افغانوں کو ملک بدر کرنے کی مہم میں تیزی لائی ہے، اس سے پہلے کی دہائیوں میں افغان مہاجرین کو پاکستان میں پناہ دینے کا عمل ایک معمول بن چکا تھا، تاہم موجودہ حالات میں اس پناہ گزینی کو مزید جاری رکھنے کے امکانات کم ہو گئے ہیں۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ "ہم مزید افغان پناہ گزینوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے۔” اس مہم کے تحت افغان مہاجرین کو بے دخل کرنے کا عمل جاری ہے، چاہے ان کی امیگریشن کی حیثیت کچھ بھی ہو۔

افغان مہاجرین کی مشکلات

پاکستان میں رہنے والے افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد کئی دہائیوں سے یہاں آباد ہے، خاص طور پر وہ لوگ جو 1979 میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد پاکستان منتقل ہوئے تھے۔ ان افغانوں کی اکثریت نے پاکستان میں اپنے پورے خاندان کے ساتھ زندگی گزاری، لیکن اب وہ افغانستان واپس جانے پر مجبور ہیں، ایک ایسے ملک میں جہاں روزگار کی کمی اور انسانی بحران کی شدت نے زندگی کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے مضافات میں، ایک حالیہ شام کو، چار خاندان اپنے سامان کو ایک ٹرک میں لوڈ کر رہے تھے۔ ان میں ایک خاندان تھا جس میں صرف 7 دن کا شیرخوار بچہ بھی شامل تھا۔ ایک افغان شہری، سیف الدین نے بتایا، "ہم نے فیصلہ کیا کہ یہاں سے نکلنا ہی بہتر ہے، کیونکہ افغانوں کے خلاف کریک ڈاؤن مزید خراب ہو سکتا تھا۔ افغانستان میں ہمارا کوئی گھر نہیں ہے اور یہاں 45 سال گزارنے کے باوجود یہ زمین ہماری نہیں ہے۔”

افغانوں کی بے دخلی کا مقصد

پاکستانی حکام نے افغانوں کی بڑی تعداد کی بے دخلی کو دہشت گردی کے خطرات سے منسلک کیا ہے۔ پاکستان نے طالبان پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ وہ پاکستانی سرحد پر سرگرم دہشت گرد گروپوں، خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ ان دہشت گرد گروپوں کے حملوں میں اضافے کی وجہ سے پاکستان میں افغان مہاجرین کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوگئیں۔ پاکستانی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ "اگر ہم طالبان کی پناہ گاہوں کو ختم کرنے میں کامیاب ہو گئے تو سرحد پار دہشت گردی کی کارروائیاں بھی رک جائیں گی۔”

افغان مہاجرین کو ملک بدر کرنے کا بین الاقوامی ردعمل

پاکستان اور ایران نے اپنی سرحدوں پر افغان پناہ گزینوں کی بڑی تعداد کو بے دخل کیا ہے، اور اس کے ساتھ ہی ان ممالک میں ان کے معاشی بحرانوں نے بھی افغانوں کی حالت زار کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ ایران نے بھی اس سال 15 لاکھ افغانوں کو بے دخل کیا ہے، جب کہ پاکستان نے 4.5 ملین افغانوں کو ملک سے نکالنے یا واپس بھیجنے کا عمل تیز کر دیا ہے۔ پاکستان نے اپنے حکومتی اقدامات کی بنیاد پر افغانوں کی ملک بدری کو تیز کر دیا ہے اور ملک بھر میں افغانوں کے خلاف آپریشنز کی شدت بڑھا دی ہے۔

پاکستانی حکام کی جانب سے افغانوں پر دباؤ

پاکستان کے مختلف صوبوں میں افغان خاندانوں کو بے دخل کرنے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں، خاص طور پر کراچی، لاہور اور بلوچستان میں۔ حکام نے زمینداروں پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ افغان خاندانوں کو اپنے اپارٹمنٹس سے نکال دیں، اور شہریوں کو سیٹی بلوئر سسٹم کے ذریعے افغانوں کی بے دخلی میں مدد کرنے کی ترغیب دی ہے۔ اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (UNHCR) کے مطابق، اس سال پاکستانی حکام نے گزشتہ سال کی نسبت 12 گنا زیادہ افغانوں کو گرفتار کیا ہے۔

افغانوں کا پاکستان میں زندگی گزارنا

پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی اکثریت دیہاڑی دار مزدوروں، مکینکوں، اور چھوٹے کاروباری افراد کی حیثیت میں زندگی گزار رہی تھی۔ بہت سے افغان، جو پاکستان کے مختلف شہروں میں رہائش پذیر تھے، اب واپس افغانستان جانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ایک افغان شہری، مہرفزون جلیلی، جو اسلام آباد کے ایک پارک میں کئی مہینوں سے خیمے میں مقیم تھا، نے کہا، "ہم پاکستانی حکام کے رحم و کرم پر ہیں۔ یہاں ہمارے لیے کوئی محفوظ پناہ گاہ نہیں ہے۔”

افغانوں کی واپسی اور ان کے مستقبل کے مسائل

افغانستان واپس جانے والے افغان پناہ گزینوں کے لیے ایک نیا بحران پیدا ہو گیا ہے۔ افغانستان میں روزگار کی کمی، سستی رہائش، اور جنگ کی تباہ کاریوں کی وجہ سے افغانوں کی زندگی مزید دشوار ہو گئی ہے۔ اسی دوران افغانستان میں انسانی بحران کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے، اور ایک ایسی حکومت کی موجودگی ہے جو بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ نہیں ہے، جس نے افغانوں کے لیے کوئی ٹھوس معاشی اور سماجی مدد فراہم نہیں کی۔

پاکستان میں موجود افغان پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ ان کی زندگی کے سب سے بہترین سال پاکستان میں گزرے ہیں، لیکن اب ان کے لیے یہ ملک ایک ناممکن پناہ گاہ بن چکا ہے۔ پاکستانی حکام کے مطابق، افغان پناہ گزینوں کی واپسی پاکستان کی سلامتی کے لیے ضروری ہے، لیکن یہ افغانوں کے لیے ایک نیا اور پیچیدہ چیلنج ہے۔

نتیجہ

پاکستان کی طرف سے افغان مہاجرین کی بے دخلی کی پالیسی ایک نیا بحران پیدا کر رہی ہے، جس کے اثرات نہ صرف ان پناہ گزینوں پر پڑ رہے ہیں بلکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی کو بھی بڑھا رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان موجودہ صورتحال کا حل نکالنا ایک بڑا چیلنج ہے، جس کے لیے بین الاقوامی برادری کو بھی اپنے کردار کو آگے بڑھانا ہوگا۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button