کالمزناصف اعوان

صبح تو ہو گی…….ناصف اعوان

آج حالت یہ ہے کہ ہمارے سماجی رویے تبدیل ہو چکے ہیں قانون کی بالا دستی کا خواب بس خواب ہی بن کر رہ گیا ہے وہ قانون جو سب کے لئے یکساں ہوتا ہے اب وہ منقسم ہے

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قانون کی حکمرانی ہی قوموں کو تہزیب یافتہ و ترقی یافتہ بناتی ہے یہ کہ ریاستی ادارے طے شدہ قواعد و ضوابط کے اندر رہ کر اپنے فرائض سر انجام دیتے ہیں جس سے لوگوں میں ایک خوشگوار تبدیلی آتی ہے اور وہ پوری یکسوئی سے تعمیر وترقی کے عمل میں شریک ہوتے ہیں انہیں یہ احساس کہ اگر انہوں نے کوئی کوتاہی و غفلت کی تو اس سے قومی نقصان ہونے کا اندیشہ ہے ۔
یورپ ومغرب صدیوں بعد یہ جزبہ اور یہ احساس پیدا کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں مگر ہمارے ہاں ابھی اس کا آغاز بھی نہیں ہو سکا‘ ہو سکتا تھا اگر ہم ایک جمہوری رخ پے چل رہے ہوتے مگر ہمیں تو اور طرح کے خیالات نے گھیرے رکھاط دوسروں کو کیسے زیر کرنا ہے کیسے ان کو بھول بھلیاں میں ڈال کر اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہے ۔
آج حالت یہ ہے کہ ہمارے سماجی رویے تبدیل ہو چکے ہیں قانون کی بالا دستی کا خواب بس خواب ہی بن کر رہ گیا ہے وہ قانون جو سب کے لئے یکساں ہوتا ہے اب وہ منقسم ہے ۔امیر کے لئے نرم و ملائم اور غریبوں کے لئے اٹل لہذا سماج میں نفرت انتقام اور دھوکا دہی در آئے ہیں جس سے ایک ہنگامی صورت حال واضح طور سے دیکھی جا سکتی ہے ہر کوئی بھونچکایا ہوا ہے بے ترتیبی‘ افراتفری اور بے حسی ماحول پر چھائی ہوئی ہے مگر کیا اس کا ذمہ دار سماج ہے ایک حد تک وہ ہے مگر جب وہ دیکھ رہا ہو کہ اوپری طبقہ تو کسی اور دنیا میں رہ رہا ہے اسے عوامی مفاد کا ذرا بھر خیال نہیں اور وہ دولت کی دوڑ میں متحرک ہے تو اسے اپنے اندر ایک ایسی تبدیلی محسوس ہوتی ہے جو آہستہ آہستہ قانون اور دوسروں سے لاتعلقی کی جانب لے جاتی ہے ۔یہی وجہ ہےکہ آج ہمارا معاشرہ مختلف النوع خرابات و خرافات میں کھویا ہوا ہے اور اپنے فرائض ادا کرنا ضروری نہیں سمجھ رہا اسے یہ قطعی فکر نہیں کہ آئندہ کیا ہو گا ؟ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب ایسے ہی چلے گا کوئی یہ کیوں نہیں سوچ رہا کہ یہ ایک ملک ہے اس کو مضبوط بنانا ہے اسے ترقی کی مچان پر بٹھانا ہے عوام کو جدید ترین سہولتوں سے ہمکنار کرنا ہے ۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ تمام بڑے آپس میں دست وگریباں ہیں۔جبکہ معیشت باں باں کر رہی ہے ذرائع پیداوار میں روز بروز کمی آ تی جارہی ہے بہت سے صنعتی یونٹس بند ہو چکے ہیں بہت سے بیرون جا چکے ہیں کیوں ؟ کیونکہ یہاں صرف سیاست سیاست کھیلی جا رہی ہے آگے بڑھنے اور غربت کے خاتمے کے لئے فقط دلاسے دئیے جا رہے ہیں ۔وہ جو کبھی امدادیں ملتی تھیں اب وہ چند فیصد رہ گئی ہیں کب تک کوئی دیتا ہے پون صدی کے بعد بھی ”کھوتی بوڑھ تھلے“ ہی کھڑی ہے یہ کلچر بھی ختم ہونے میں نہیں آرہا کہ کسی حکومت کو انہماک و یکسوئی کے ساتھ کام نہیں کرنے دینا اسے پریشان کرتے رہنا ہے انتشار و افتراق کی فضا میں ہی گھماتے رہنا ہے اب تو کچھ ترس کھا لو پاکستان کے عوام کی سسکیاں سنو ‘ ان کے دکھ بانٹو‘ تم سب کو اپنی تجوریاں بھرنے کی پڑی ہوئی ہے اتفاق و یک جہتی کا مظاہرہ کرو تاکہ باہر سے سرمایہ کار آئیں ۔ہمارے اپنے جو سرمایہ کار ہیں وہ بھی مطمئن نہیں بھاگ رہے ہیں‘ روکو انہیں۔ لگتا تو پھر یہی ہے کہ سب ہی غیر سنجیدہ ہیں کہ جو ہو گا دیکھا جائے گا .
بہر حال دھما چوکڑی مچی ہوئی ہے پھڑ لو پھڑ لو کی آوازیں ہر طرف سنائی دے رہی ہیں ہیرا پھیری کا منظر ہے کسی کو کسی سی ہمدردی نہیں ۔انسانیت نام کی کوئی چیز بھی ہوتی ہے اس بارے کچھ علم نہیں۔ یہ دیکھ کر اجتماعی مزاج کڑوے کسیلے ہو چکے ہیں ۔ لہجوں میں مٹھاس نہیں ۔بس بارعب گرجدار آوازیں ہیں جو سنائی دیتی ہیں ایسے میں کس طرح جیا جا سکتا ہے لہذا بڑے چھوٹے سب چاہتے ہیں کہ ملک چھوڑ دیں کوئی سبزی فروش ہے یا پھل فروش وہ بھی یورپ جانے کی خواہش کر رہا ہے کہ وہاں انسانیت ہے محبت ہے اور درد دل ہے۔
اطمینان کی گھڑیاں تو کہیں دور جا بسی ہیں ہر وقت یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہ کچھ ہو نہ جائے کوئی آ نہ جائے ۔روٹی کا حصول مشکل ہو چکا ہے سڑک کنارے کھڑے ہو کر جو بے چارے ریڑھیوں پے کھانے پینے کی چیزیں فروخت کرتے ہیں اب وہ بھی پریشان ہیں کہ انہیں محکمہ تجاوزات روکنے ٹوکنے آ نکلتا ہے جبکہ مہزب ممالک میں بھی اسی طرح ریڑھیاں اور خوانچے ہوتے ہیں مگر وہاں کوئی روک ٹوک نہیں ہاں وہاں باقاعدہ ان کو ٹاؤن والوں سے اجازت ضرور لینا پڑتی ہے۔ تو کریں جاری یہ بھی اجازت نامے انہیں کوئی اعتراض نہیں وہ فیس وصول کریں ٹیکس لیں ؟
بہر کیف یہاں قانون کی حکمرانی سبھی چاہتے ہیں مگر جب کبھی قانون نیند سے بیدار ہوتا ہے تو چیخیں بلند ہو جاتی ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ جب لوگوں کو عادت پڑ چکی ہو من مرضی کی اور پھر ان کے حاکم قانون کو مکڑی کا جالا سمجھتے ہوں اور اسے توڑ کر دوسری جانب نکل جاتے ہوں تو ان کے عوام میں بھی یہ رویہ و طرز عمل جنم لے کر تقویت پکڑ جاتا ہے جس سے چھٹکارا پانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ واحد راستہ اس سے گلو خلاصی کا یہی ہے کہ ایک منظم تبدیلی لائی جائے جسے انقلاب بھی کہتے ہیں اس میں ہوگا یہ کہ نظام کہنہ کو بدل دیا جائے گا ۔ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں جو یہ کہتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں دودھ کی نہریں بہہ نکلیں گی وہ غلط کہتے ہیں اگر آنے والے دنوں سے مراد پچاس ساٹھ برس ہیں تو پھر ٹھیک ہے مگر ہمیں تو ضرورت فی الحال ہے کیونکہ جو ہمارا حال ہے ایسا کسی جدید معاشرے میں نہیں ہوتا۔ ٹریفک کو دیکھیں تو وہ بے ہنگم ہے۔ ہر کوئی جلدی میں‘ سرکاری وغیر سرکاری زمینیں طاقتور سونے کے مول بیچ رہے ہیں تھانے اچھے برے لوگوں سے ایک ہی طرح کا سلوک کرتے ہیں عدالتیں اپنے فیصلوں پر عمل من وعن عمل درآمد کروانے میں کمزور ثابت ہوئی ہیں پھر ان کے فیصلوں پر تحفظات و اعتراضات بھی ہیں؟
افسوس ! ہم کیا سے کیا ہو گئے سوچا تھا کہ بہت آگے جائیں گے ستاروں پے کمند ڈالیں گے مگر ابھی تو اس سمت بڑھ ہی نہیں پائے ۔ہمیں ہرے بھرے خوابوں کی دنیا کی سیر تو کروائی گئی مگر عملاً کچھ نہیں ہوا اب بھی ”ڈلے بیراں دا کجھ نئیں بگڑیا“ ہم سنبھل سکتے ہیں صرف ایک کام کرنا ہو گا خلوص اپنے ذہنوں میں سمو لیں اس کے بغیر معاملات درست نہیں ہوں گے موجودہ حالات میں کہیں سے قارون کا خزانہ بھی ہمارے ہاتھ لگ جائے تو بھی ہمارے دن نہیں پھریں گے ۔ ستتر برس کی قومی زندگی میں اسی ایک خلوص کی کمی دیکھی گئی ہے اگر اسے پورا کر لیا جاتا ہے تو پھر ڈوبتے سورج کو دیکھتی آنکھیں طلوع ہوتے سورج کو بھی دیکھ سکیں گی !

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button