
مودی راج میں مسلم مخالف اقدامات میں خطرناک شدت: روزمرہ زندگی میں توہین، خوف، اور بنیادی حقوق کی پامالی معمول بن گئی
مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ان کے روزگار کے ذرائع ختم کر دیے گئے ہیں اور انہیں روزمرہ کے معاملات میں بھی شدید رکاوٹوں کا سامنا ہے
نئی دہلی (بین الاقوامی رپورٹر) — بھارت میں نریندر مودی کی قیادت میں برسراقتدار بی جے پی حکومت کے دورِ اقتدار میں مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک، نفرت پر مبنی اقدامات اور مذہبی بنیادوں پر مظالم میں روز بروز تشویشناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہندوتوا نظریے کے فروغ نے بھارت کی سب سے بڑی اقلیتی برادری کو نہ صرف روزمرہ کی زندگی میں اجنبیت، بلکہ خطرات، توہین اور ذلت کا مستقل سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
بھارتی انگریزی اخبار "دی وائر” کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ریاست اترپردیش کے شہر متھرا میں مسلم مخالف رویے خطرناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔ 2021 میں شہر کو "مقدس علاقہ” قرار دیے جانے کے بعد وہاں مسلمانوں کی اقتصادی، سماجی اور مذہبی آزادیوں پر کھلی قدغنیں لگائی جا رہی ہیں۔
روزگار متاثر، کاروبار بند، خوف کا ماحول قائم
متھرا جیسے شہر میں، جہاں مسلم اکثریتی محلے موجود ہیں، وہاں گوشت کی دکانیں، ہوٹل، اور چھوٹے کاروبار زبردستی بند کرا دیے گئے ہیں۔ مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ان کے روزگار کے ذرائع ختم کر دیے گئے ہیں اور انہیں روزمرہ کے معاملات میں بھی شدید رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
پولیس اختیارات میں بے تحاشا اضافہ، جھوٹے مقدمات عام
رپورٹ کے مطابق گائے کے تحفظ کے قوانین کے تحت پولیس کو دیے گئے غیرمعمولی اختیارات نے مسلمانوں کے لیے فضا مزید تنگ کر دی ہے۔ کئی مقامات پر جھوٹے الزامات لگا کر گرفتاریوں کا رجحان بڑھا ہے۔ مسلمانوں میں گوشت کھانے کا عمل خوف کی علامت بن چکا ہے، کیونکہ معمولی افواہ پر بھی تشدد، گرفتاری یا ہراسانی کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔
مذہبی مقامات کی بے حرمتی، مساجد پر پابندیاں
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کے قبرستانوں کے ساتھ کچرے کے ڈھیر دانستہ طور پر ڈالے جا رہے ہیں، جبکہ مساجد کے قرب و جوار میں بیت الخلاء تعمیر کیے جا رہے ہیں، جو کہ واضح طور پر مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی کوشش ہے۔ مزید برآں، آذان پر پابندیاں، مساجد پر قبضے کی کوششیں اور مسلم آبادیوں کے مکانات کی مسماری جیسے اقدامات آر ایس ایس کے "ہندوتوا ایجنڈے” کا حصہ بن چکے ہیں۔
مسلمانوں کو "دیمک” قرار دینا، زعفرانی کپڑوں میں چھپنے کی مجبوری
بعض ہندو سیاسی رہنما کھلے عام مسلمانوں کو "دیمک” جیسے توہین آمیز القابات سے پکارتے ہیں۔ شدت پسندی کا یہ عالم ہے کہ مسلمان نوجوان اپنی شناخت چھپانے کے لیے زعفرانی (بھگوا) رنگ کے کپڑے پہننے پر مجبور ہو چکے ہیں تاکہ وہ حملوں سے بچ سکیں۔
نفرت انگیز بیانات اور اشتعال انگیزی میں اضافہ
رپورٹ کے مطابق متھرا میں مسلم مخالف نفرت انگیز بیانات روزانہ کی بنیاد پر سننے کو مل رہے ہیں۔ سیاسی رہنما، مذہبی شدت پسند اور مقامی غنڈے مسلمانوں کو دھمکیاں دیتے، سوشل بائیکاٹ کی ترغیب دیتے، اور ان پر جسمانی حملے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ہندوتوا نظریہ: آئینی سیکولرازم کے منافی ایجنڈا
ماہرین کے مطابق مودی حکومت کے تحت بھارت میں جس ہندوتوا نظریے کو ریاستی سرپرستی حاصل ہو چکی ہے، وہ بھارتی آئین کے بنیادی سیکولر تشخص سے انحراف ہے۔ آر ایس ایس، وشو ہندو پریشد اور دیگر شدت پسند تنظیموں کے زیر اثر پالیسیاں مسلمانوں کے وجود کو "خطرہ” سمجھ کر انہیں دبانے، خاموش کرانے اور دوسرے درجے کا شہری بنانے کی کوشش کرتی ہیں۔
ان حالات میں انسانی حقوق کی تنظیمیں، اقوام متحدہ، او آئی سی اور مغربی جمہوریتوں کی خاموشی بھی قابلِ تشویش ہے۔ بھارت میں اقلیتوں پر جاری ظلم کے خلاف عالمی سطح پر کوئی ٹھوس ردعمل دیکھنے کو نہیں ملا، جو کہ ان مظلوم طبقات کے لیے مزید خطرناک پیغام بن رہا ہے۔
مودی حکومت کے دور میں بھارتی مسلمانوں کی زندگی بدترین دباؤ، خوف، اور نفرت میں گھر چکی ہے۔ روزگار، مذہبی آزادی، جان و مال، تعلیمی مواقع اور اظہار رائے جیسی بنیادی انسانی حقوق محدود ہوتے جا رہے ہیں۔ متھرا کی مثال سے واضح ہوتا ہے کہ اگر یہ سلسلہ نہ روکا گیا تو بھارت میں مسلمانوں کے لیے حالات ناقابلِ برداشت حد تک بدتر ہو سکتے ہیں۔






