
امریکی امن منصوبے پر عالمی رہنماؤں کی بڑھتی تشویش ، “روس کے حق میں جھکاؤ” کے الزامات، یورپی تحفظات شدت اختیار کر گئے
یورپی دارالحکومتوں میں ان نکات کو یوکرین کی خودمختاری اور یورپی سلامتی پر براہ راست اثرات کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
مدثر احمد-امریکہ،وائس آف جرمنی کے ساتھ
ہفتے کے روز عالمی رہنماؤں نے یوکرین کے لیے امریکہ کے مجوزہ امن منصوبے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ تجویز روس کے حق میں جھکاؤ رکھتی ہے، اور اس میں متعدد ایسے نکات شامل ہیں جنہیں یورپی ممالک اور یوکرین “ناقابلِ قبول رعایتیں” قرار دے رہے ہیں۔ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ منصوبے کے کئی حصوں پر “مزید کام” کی ضرورت ہے اور فی الحال اسے حتمی خاکہ تصور نہیں کیا جا سکتا۔
امریکی امن منصوبے پر یورپی تحفظات—”روس کو غیر معمولی رعایتیں”
یورپی سفارت کاروں کے مطابق اس منصوبے کی تیاری میں یورپی طاقتوں اور یوکرین سے بہت کم مشاورت کی گئی، جبکہ اس کے متعدد نکات یوکرین کے موقف سے واضح طور پر انحراف کرتے ہیں۔
28 نکاتی امریکی امن تجویز کے تحت:
یوکرین کو اپنا حصہ علاقہ روس کے حوالے کرنا ہوگا
نیٹو میں شمولیت کے دیرینہ ہدف سے دستبردار ہونا ہوگا
یوکرین کی مسلح افواج کی تعداد اور صلاحیتوں پر پابندیاں عائد ہوں گی
یورپی دارالحکومتوں میں ان نکات کو یوکرین کی خودمختاری اور یورپی سلامتی پر براہ راست اثرات کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
یورپی رہنماؤں کا ردعمل: "یہ منصوبہ امن کی بنیاد تو ہے، مگر قابل قبول نہیں”
جی 20 سربراہی اجلاس کے موقع پر یورپی رہنماؤں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا:
امن منصوبہ ایک “ابتدائی خاکہ” تو ہو سکتا ہے
مگر "یوکرین کی مسلح افواج پر امریکی مسودے میں تجویز کردہ حدیں” سنجیدہ تشویش کا باعث ہیں
نیٹو اور یورپی یونین سے متعلق کسی بھی شق پر تمام رکن ممالک کی رضامندی لازمی ہوگی
یورپی یونین اور نیٹو کے رہنماؤں کے مطابق روس کے لیے رعایتیں دینے سے مستقبل میں یورپ کی سیکورٹی انفراسٹرکچر غیر مستحکم ہو سکتا ہے۔
جرمن چانسلر فریڈرک مرز نے کہا:
“یہ جنگ صرف یوکرین کی رضامندی اور یورپی رضامندی سے ختم ہو سکتی ہے۔ یہ یورپی براعظم کی جنگ ہے، کسی ایک ملک کا معاملہ نہیں۔”
برطانوی وزیرِ اعظم کیئر اسٹارمر نے امریکی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا:
“ہم امن چاہتے ہیں، مگر اس منصوبے پر مزید کام کی ضرورت ہے۔”
ڈاؤننگ اسٹریٹ نے تصدیق کی کہ اسٹارمر نے ٹرمپ سے رابطے میں امن منصوبے کے “آگے بڑھنے کے نکات” پر اتفاق کیا ہے۔
یوکرینی قیادت کا ردعمل—”وقار یا امریکی حمایت کھونے کے درمیان انتخاب”
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ ملک ایک ایسے مشکل دوراہے پر کھڑا ہے جہاں:
یا تو اسے اپنی علاقائی سالمیت اور وقار پر سمجھوتہ کرنا ہوگا
یا پھر اہم امریکی حمایت کھونے کا خطرہ مول لینا ہوگا
زیلنسکی نے واضح کیا کہ "یوکرین پر دباؤ ڈال کر امن مسلط نہیں کیا جا سکتا۔”
ادھر سابق امریکی صدر اور امن منصوبے کے بانی ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ یہ حتمی پیشکش نہیں ہے۔
ٹرمپ نے صحافیوں سے کہا:
“نہیں، یہ میری آخری پیشکش نہیں۔ ہم امن چاہتے ہیں، اور یہ جنگ بہت پہلے ختم ہو جانی چاہیے تھی۔”
سفارتی سرگرمیاں تیز، جنیوا میں کل بڑا اجلاس
ایک امریکی اہلکار نے تصدیق کی ہے کہ اتوار کو جنیوا میں امریکی اور یوکرینی اعلیٰ حکام ملاقات کریں گے۔
شرکاء میں شامل ہوں گے:
امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو
سفیر اسٹیو وٹ کوف
یوکرین کے اہم سفارتی اور سلامتی مشیر
مقصد یہ ہے کہ ٹرمپ–زیلنسکی ملاقات سے پہلے باضابطہ سفارتی زبان اور تجاویز پر اتفاق کر لیا جائے۔
ادھر سوئٹزرلینڈ میں روس اور امریکہ کے درمیان بھی امن منصوبے پر علیحدہ ملاقات طے ہے، اگرچہ یہ مذاکرات جنیوا میں نہیں ہوں گے۔
زیلنسکی نے تصدیق کی کہ انہوں نے اپنے وفد کی تشکیل کا حکم نامہ جاری کر دیا ہے، اور یوکرینی نمائندے “قومی مفادات کا بھرپور دفاع کریں گے اور روس کو تیسرے حملے سے روکنے کے لیے واضح حکمت عملی رکھیں گے۔”
یورپی خدشات—”قبضے کو قانونی حیثیت نہیں دی جا سکتی”
ایک یورپی سفارت کار نے CNN کو بتایا کہ مستقبل کے کسی بھی امن معاہدے کی بنیادوں میں یہ نکات شامل ہونے چاہئیں:
روس کے قبضے کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا
موجودہ “رابطہ لائن” مذاکرات کی شروعات ہو سکتی ہے، اختتام نہیں
یوکرین کے اتحاد کے حق کو ختم نہیں کیا جا سکتا
مسلح افواج پر پابندی کا تصور ناقابلِ قبول ہے
سفارت کار کے مطابق امریکی منصوبے کی “سیکیورٹی گارنٹیوں” والی شق ابہام کا شکار ہے اور اسے مزید واضح کرنے کی ضرورت ہے۔
یورپی یونین کا خصوصی اجلاس طلب: تنازع شدت اختیار کرتا ہوا
یورپی کونسل کے صدر انتونیو کوسٹا نے تمام 27 یورپی رہنماؤں کو پیر کے روز "یوکرین پر خصوصی اجلاس” میں شرکت کی دعوت دی ہے۔
یہ اجلاس EU–افریقی یونین سربراہی اجلاس کے حاشیے پر ہو گا۔
ذرائع کے مطابق یورپی یونین کا مقصد امریکی منصوبے پر ایک متحدہ یورپی پوزیشن تشکیل دینا ہے۔
نتیجہ — بڑی سفارتی کشمکش آغاز پر
امریکی امن منصوبہ عالمی سفارتی حلقوں میں شدید بحث کا مرکز بن چکا ہے۔
ایک جانب امریکہ کی کوشش ہے کہ جنگ جلد ختم کی جائے، لیکن دوسری جانب یورپ، یوکرین اور متعدد مبصرین اسے روس کے حق میں غیر متوازن سمجھتے ہیں۔
اگلے 48 گھنٹے فیصلہ کن ہوں گے:
کیا واشنگٹن اپنے مسودے میں بڑے ترمیمات پر تیار ہوگا؟
کیا جنیوا کی بات چیت ٹرمپ–زیلنسکی ملاقات کے لیے راستہ ہموار کرے گی؟
اور کیا روس مذاکرات کے اگلے مرحلے میں شامل ہونے پر آمادہ ہوگا؟
عالمی طاقتیں محتاط انداز میں دیکھ رہی ہیں کہ آیا یہ منصوبہ امن کا دروازہ کھولے گا — یا مستقبل کے نئے تنازعے کا۔



