اہم خبریںبین الاقوامی

افغانستان کا اعلان: "افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے”،علما کی قرارداد، پاکستان سے کشیدگی، اور علاقائی صورتحال میں نئی پیش رفت

علما نے اس قرارداد کو اسلامی اور شرعی اصولوں کے مطابق قرار دیتے ہوئے طالبان حکومت کو اختیار دیا کہ بیرونی ممالک کے خلاف کارروائیوں میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کرے۔

رپورٹ وائس آف جرمنی اردو نیوز

افغانستان میں طالبان حکومت نے واضح اعلان کیا ہے کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال نہیں کی جائے گی، اور جو بھی اس ہدایت کی خلاف ورزی کرے گا اس کے خلاف اسلامی امارت کارروائی کرے گی۔ یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب افغان مذہبی علما کے ایک بڑے اجتماع میں ہزار سے زائد شرکاء نے ایک قرارداد منظور کی جس میں بیرونِ ملک عسکری کارروائیوں پر سخت پابندی کا مطالبہ کیا گیا۔

علما کا بڑا اجتماع — قرارداد کی منظوری

افغان نشریاتی ادارے طلوع نیوز کے مطابق ملک بھر سے تقریباً ایک ہزار علما نے کابل میں ایک روزہ اجلاس میں شرکت کی، جس میں ایک اہم قرارداد منظور کی گئی۔


قرارداد میں کہا گیا:

  • افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔

  • جو بھی افغان شہری ملک سے باہر عسکری کارروائی کرے گا، اسے "ریاست کا باغی” سمجھا جائے گا۔

  • امیرِ طالبان ہیبت اللہ اخوندزادہ نے کسی فرد یا گروہ کو بیرون ملک فوجی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی۔

  • اسلامی امارت کو ہدایت کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف ضروری اقدامات کرنے کا حق حاصل ہے۔

علما نے اس قرارداد کو اسلامی اور شرعی اصولوں کے مطابق قرار دیتے ہوئے طالبان حکومت کو اختیار دیا کہ بیرونی ممالک کے خلاف کارروائیوں میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کرے۔

وزیر خارجہ امیر خان متقی کا بیان: "یہ حکم تمام مسلمانوں پر لازم ہے”

اجلاس کے بعد افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے خطاب کرتے ہوئے کہا:

"اسلامی نظام کے حکام اور قیادت نے فیصلہ کیا ہے کہ افغان سرزمین کسی کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔ یہ علما کے متفقہ فیصلے کے مطابق تمام مسلمانوں پر لازم ہے۔ اگر کوئی اس اصول کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اسلامی امارت اسے روکنے کی مجاز ہے۔”

انہوں نے زور دیا کہ اسلام باہمی اتحاد، بھائی چارے اور اختلافات سے اجتناب کا درس دیتا ہے، اور مسلمان ممالک کے درمیان دشمنی قابلِ قبول نہیں۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان بڑھتی کشیدگی کا پس منظر

یہ پیش رفت ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب:

  • اکتوبر میں دونوں ممالک کے درمیان شدید سرحدی جھڑپیں ہوئیں جس میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔

  • پاکستان بارہا الزام لگا چکا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے جنگجو افغان سرزمین سے حملے کرتے ہیں۔

  • کابل ان الزامات کو “بلا ثبوت” قرار دے کر مسترد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ پاکستان کی داخلی سلامتی اس کا اپنا مسئلہ ہے۔

گزشتہ چند ماہ میں قطر، ترکیہ اور سعودی عرب میں ہونے والے مذاکرات بھی کسی حتمی پیش رفت تک نہیں پہنچ سکے۔

پاکستان کا محتاط ردعمل — "مثبت مگر ناکافی”

اسلام آباد نے علما کی قرارداد کو ایک "مثبت قدم” قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ اس سے سرحد پار حملوں میں کمی آئے گی۔
تاہم پاکستانی حکام نے محتاط رویہ اختیار کیا ہے اور مطالبہ دہرایا ہے کہ:

  • طالبان سپریم لیڈر تحریری فرمان جاری کریں۔

  • افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی باقاعدہ ضمانت دی جائے۔

پاکستان کے مطابق طالبان کا سابقہ رویہ اور TTP کے ساتھ تعلقات کے باعث صرف "زبانی یقین دہانی” کافی نہیں۔

کیا قرارداد مؤثر ثابت ہو گی؟ ماہرین کا تجزیہ

بین الاقوامی و علاقائی امور کے ماہرین کے مطابق:

  • یہ قرارداد ایک اہم علامتی پیش رفت ہے۔

  • علما کا اثر و رسوخ طالبان جنگجوؤں پر نمایاں ہے۔

  • لیکن علما کے پاس قانونی اختیار نہیں، لہٰذا یہ واضح نہیں کہ سزا یا کارروائی کس طرح نافذ ہوگی۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چونکہ قرارداد میں پاکستان کا نام نہیں لیا گیا، اس لیے اسلام آباد کے تحفظات مکمل طور پر دور نہیں ہوئے۔

افغان مذہبی اسکالر شیخ فقیراللہ فائق کی رائے

کابل یونیورسٹی میں علما کے اجلاس میں شریک مذہبی اسکالر شیخ فقیراللہ فائق نے اس قرارداد کو "بہت اہم” قرار دیا۔


انہوں نے کہا:

  • افغانستان کے 34 بڑے جہادی مدارس کے علما نے شرکت کی۔

  • اساتذہ کا اثر ان طالبان پر ہوتا ہے جو بیرون ملک لڑائی میں جاتے ہیں۔

  • سپریم لیڈر نہیں چاہتے کہ ”افغانوں کی وجہ سے کوئی ہمسایہ ملک مشکلات کا شکار ہو“۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ قرارداد عملی طور پر مثبت نتائج دے گی۔


نتیجہ

افغان طالبان حکومت اور مذہبی علما کی جانب سے افغان سرزمین کے بیرون ملک استعمال پر پابندی کا یہ اعلان ایک اہم سفارتی اور سیاسی پیش رفت ہے۔ تاہم پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں جاری کشیدگی اور TTP کے معاملے پر اختلافات برقرار ہیں۔
ماہرین کے مطابق اگلے چند ماہ میں یہ واضح ہوگا کہ آیا یہ قرارداد زمینی صورتحال پر کوئی عملی اثر ڈالتی ہے یا نہیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button