
زرنم نور کے نام۔۔۔۔۔۔۔۔امجد عثمانی
میں نے تعزیتی پیغام لکھا:ہائے گڑیا۔۔۔۔رلادیا۔۔۔۔۔اپنے بابا پر جان وارنے والی "گڑیا"سی زرنم نور پیارے سے بابا کو" گھائل"کر کے چلی گئیں۔۔۔۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔۔۔۔۔۔!!!
گوجرانوالا کے نیک نام اخبار نویس دوست جناب ڈاکٹر عمر نصیر کی اکلوتی اور چہیتی صاحب زادی کی جدائی پر آنکھیں پرنم ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ دن پہلے لاہور سے درویش منش وقاص ظہیر کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کو "پرسہ” دینے گیا تو میرے وہی جذبات تھے جو میں نے زرنم نور کی وفات کی اطلاع پر ابتدائی تعزیتی پیغام میں لکھے۔۔۔۔۔۔۔میں اس شب پہلی بار ان کو فون نہ کر سکا۔۔۔۔۔۔میں نے تعزیتی پیغام لکھا:ہائے گڑیا۔۔۔۔رلادیا۔۔۔۔۔اپنے بابا پر جان وارنے والی "گڑیا”سی زرنم نور پیارے سے بابا کو” گھائل”کر کے چلی گئیں۔۔۔۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔۔۔۔۔۔!!!گوجرانوالہ میں صحافت کی دنیا میں ہمارے عزیز از جان دوست برادرم جناب ڈاکٹر عمر نصیر کی لخت جگر والدین اور اکلوتے بھائی کو داغ مفارقت دے گئیں۔۔۔۔۔۔۔۔رات کے اس پہر دل خون کے آنسو رو رہا اور کلیجہ منہ کو آرہا ہے۔۔۔۔۔۔۔ہمت نہیں پڑ رہی کہ ڈاکٹر صاحب کو فون کروں۔۔۔۔۔۔کیا کہوں۔۔۔۔۔کیسے کہوں؟؟؟بڑی مشکل سے ایک وائس میسج کیا ہے۔۔۔۔زرنم ان کے گھر کی دولت تھیں۔۔۔۔نور ان کے گھر کی روشنی تھیں۔۔۔۔۔۔گھر میں اندھیرا ہو گیا۔۔۔۔۔۔گھر لٹ گیا۔۔۔۔نور کی جدائی پر آنکھیں اشکبار بار ہیں اور لبوں پر سسکتی دعا ہے کہ اللہ پیاری بیٹی کو جنت میں گھر اور ڈاکٹر صاحب اور اہل خانہ کو صبر جمیل دے۔۔۔۔۔اولاد کی جدائی کا غم "کوہ گراں” ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔پہاڑ جتنے مضبوط والدین بھی "ٹوٹ” جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔میں کئی دن بعد ڈاکٹر صاحب سے گلے ملا تو ان کے دل سے "ہوکے” اٹھ رہے تھے۔۔۔۔۔میں نے انہیں کتنی ہی دیر سینے سے لگائے رکھا کہ دل سے ان کے غم میں برابر شریک ہو جائوں۔۔۔۔۔۔رونے کو جی چاہا مگر آنسو پی گیا کہ میں نے صبر کا دامن چھوڑا تو قہقہے مارنے والے دوست کے ضبط کا بندھن ٹوٹ جائے گا۔۔۔۔۔میں نے تئیس سالہ صحافتی رفاقت میں ان کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ دیکھی۔۔۔۔انہیں اشک بار نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس لیے میں ان کے گھر سے جلدی اٹھ آیا۔۔۔۔۔زرنم مجھے بھی کبھی نہیں بھولے گی۔۔۔۔میں اس کی” خوشبو” کبھی نہیں بھولوں گا۔۔۔۔۔۔تین چار سال پہلے کی بات ہے میں ایک دوست کے کام کے لیے ڈاکٹر صاحب کے گھر گیا۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ دیر بیٹھنے بعد واپس جانے لگے تو زرنم کو ناجانے کیا سوجھی۔۔۔۔وہ اندر سے بھاگتی دروازے پر آئی اور چڑیا کی طرح چہکتے ہوئے کہا انکل یہ آپ کے لیے ایک گفٹ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے ہاتھ میں ایک بہت ہی مسحور کن پرفیوم تھی۔۔۔۔۔۔۔میری آنکھیں چھلک پڑیں کہ بیٹیاں کتنی باوفا ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے گھر آکر اپنی دونوں بیٹیوں کو بڑے اشتیاق سے پرفیوم دکھائی کہ میرے دوست کی بیٹی نے مجھے یہ تحفہ دیا ہے۔۔۔۔۔میں نے کہا ایک بیٹی کا تحفہ آپ بیٹیوں کے نام کرتا ہوں۔۔۔۔انہوں نے بھی کتنی ہی دیر یادگار کے طور پر زرنم کا یہ تحفہ سنبھالے رکھا۔۔۔۔۔وہ اور میں کبھی کبھی اسے استعمال کرتے اور زرنم کی خوشبو محسوس کرتے۔۔۔۔۔۔میں شاید ہی کبھی وہ منظر۔۔۔۔زرنم کا چہرہ اور خوشبو کا انمول تحفہ بھول پائوں۔۔۔۔۔یہ کورونا کے دنوں کی بات ہے میں لاہور کے بہترین صحافی دوست برادرم معظم فخر کے ساتھ سیالکوٹ میں اپنے میڈیا پرسن دوست ڈاکٹر شمس جاوید کو ملنے گیا۔۔۔۔۔۔واپسی پر ہم ڈاکٹر عمر نصیر کو ملنے گوجرانوالہ چلے گئے۔۔۔۔۔اس دن بھی زرنم نور ہمارے لیے گھر سے کھانا لیکر ائی۔۔۔۔وہ بڑی خوش تھی اور بڑی چاہت سے اپنے ہاتھ سے بنی بریانی اپنے ہاتھوں سے ہمیں ڈال ڈال کر دے رہی تھی۔۔۔۔۔۔شاید ہی کبھی میزبانی کا یہ منظر۔۔۔۔زرنم کا چہرہ اور کھانے کی خوشبو بھول پائوں۔۔۔۔۔!!!ڈاکٹر صاحب بتا رہے تھے کہ وہ ٹک ٹاک پر فوڈ کے حوالے سے وی لاگ کرتی تھی اور اس کے بیس لاکھ فالورز تھے۔۔۔۔۔ دنیا چھوڑنے سے ایک گھنٹہ پہلے بھی اس نے وی لاگ کیا اور آخر میں بائے کہا۔۔۔ڈاکٹرصاحب نے بتایا کہ وہ تھیلے سیمیا سے ہنستے کھیلتے لڑ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے کبھی اس مرض کا مائنڈ نہیں کیا۔۔۔۔۔وہ کافی شرارتی تھی اور اپنے اکلوتے بھائی کو چھیڑا کرتی تھی۔۔۔۔۔وہ بتارہے تھے کہ زرنم کی اچانک جدائی پر ٹک ٹاک کی دنیا میں بھی کہرام مچا ہوا یے۔۔۔۔آنسو۔۔۔اور۔۔آہیں ہیں۔۔۔۔
میرا سن کر اس روز ہمارے مرحوم دوست جناب عرفان کامریڈ کی اہلیہ ثمینہ بھی ڈاکٹر صاحب کے گھر آگئیں۔۔۔۔۔ہم لوگ دو دہائیاں پہلے پہلے ملے تھے اور آج بھی مل رہے ہیں۔۔۔۔۔یہ نوے کی دہائی کے آخری سال جنرل پرویز مشرف کے جمہوریت پر شب خون سے کچھ مہینے پہلے کی بات ہے ۔۔۔۔روزنامہ صحافت لاہور میں جناب طاہر پرویز بٹ کی زیر ادارت ڈسٹرکٹ ڈیسک پر جناب فضل حسین اعوان سے عملی صحافت کی "ابجد”سیکھ رہا تھا کہ ایک دن سنئیر صحافی دوست جناب عمران شاہ نے "ایڈونچر”کا نعرہ مستانہ لگادیا۔۔۔۔۔۔انہوں نے بتایا کہ گوجرانوالہ میں ایک صحافی دوست جناب عرفان کامریڈ کے ذہن میں ایک کمال "خاکہ” ابھرا ہے۔۔۔۔وہ شہر کا اخبار نکالنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔وہ چاہتے ہیں کہ لاہور کی ایک بہترین نیوز ٹیم اس خاکے میں رنگ بھرے۔۔۔۔۔ہم کوئی سات آٹھ رکنی ٹیم لیکر پہلوانوں کے شہر پہنچ گئے۔۔۔۔۔۔۔ہم نے چند دن چار صفحات کے اخبار کی ڈمی کے بعد باقاعدہ اخبار لانچ کر دیا۔۔۔۔۔۔۔مجھے یاد ہے محترمہ عاصمہ جہانگیر افتتاحی تقریب کی مہمان خصوصی تھیں۔۔۔۔میں نے سپاس نامہ پیش کرتے کہا کہ یہ اخبار قدامت پسند ہوگا نہ نام نہاد روشن خیال بلکہ ہم اعتدال کی راہ چلیں گے تو عاصمہ جہانگیر نے معنی خیز انداز میں عرفان صاحب کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر عمر کے ساتھ پہلی ملاقات بھی انہی دنوں ہوئی تھی۔۔۔۔۔بلاشبہ عرفان کامریڈ اور ڈاکٹر عمر ایسے لوگوں نے خون جگر دیکر علاقائی صحافت کے رخ برگ گل نکھارے ہیں۔۔۔۔ثمینہ تب اس اخبار میں آفس مینجر تھیں۔۔۔۔۔۔وہ نا صرف ہمیں اپنے ہاتھ سے چائے بنا کر دیتیں بلکہ آفس بوائے کو پراٹھے بھی بنا کر کھلا دیتیں۔۔۔۔وہ بڑی معصومیت سے کہتا باجی ایک پراٹھا ہی بنادیں تو وہ ایک مہربان ماں کی طرح اٹھتیں اور ممتا سے دور اس ننھے مزدور کے لیے پراٹھا بنا لاتیں۔۔۔۔پھر وہی ہوا جو بدقسمت اخباروں کے ساتھ ہوتا ہے۔۔۔۔۔کچھ عرصے بعد ایڈیٹر عرفان کامریڈ اور مالکان میں ان بن ہوگئی اور اخبار کے دفتر کو تالے لگ گئے۔۔۔۔یوں ہمارا ایڈونچر مس ایڈونچر میں بدل گیا۔۔۔۔۔اسی مس ایڈونچر کے دوران ایک ایڈونچر اور ہوا اور ہمارے رفقائے کار جناب عرفان کامریڈ اور ثمینہ نکاح کے بندھن میں بندھ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی آفس بوائے کی پراٹھوں والی باجی پیا گھر سدھار کر مسز عرفان بن گئیں۔۔۔۔پھر حالات جیسے بھی رہے ۔۔۔۔ثمینہ نے عرفان سے وفا کی حد کر دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ نے انہیں دو بیٹیاں دیں جن کی اب وہ باپ بن کر پرورش کر رہی ہیں۔۔۔۔۔۔مجھے اس دن ان کی بیٹیوں سے مل کر بہت اچھا لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ پہلے سائیکلوں پر سکول اور اب موٹر سائیکلوں پر کالج جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عرفان کامریڈ کا منفرد اخبار بند ہوا تو جرات گروپ نے گوجرانوالہ سے روزنامہ تجارت کو شہر کے اخبار کے طور پر آزمانے فیصلہ کر لیا۔۔۔۔جناب عرفان اطہر قاضی سے میری مختصر ملاقات ہوئی اور انہوں نے مجھے نیوز روم کے معاملات سونپ دیے۔۔۔۔سرفراز مہر ریذیڈنٹ ایڈیٹر تھے۔۔۔۔ڈاکٹر عمر نصیر تب جنگ بیورو کے لیے رپورٹنگ کرتے تھے۔۔۔۔۔۔۔وہ شام کو ہمارے پاس آتے۔۔۔۔وہ پہلے خبریں فائل کرتے اور پھر مجھ سے سرخیاں بنانا سیکھتے۔۔۔۔جلد ہی وہ رپورٹر کے ساتھ ساتھ نیوز ایڈیٹر بھی بن گئے۔۔۔۔۔یہ تجربہ ان کے کام آیا اور وہ کئی سال سے تن تنہا شہر کا بہترین اخبار روزنامہ انقلابی دنیا نکال رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ان کے والد گرامی قریش نعیم بھی نیک نام صحافی کے ساتھ ساتھ کشمیری رہنما تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ڈاکثر صاحب ہر دل عزیز ایڈیٹر کے ساتھ ساتھ مقبول ترین سیاسی اور سماجی رہنما بھی ہیں۔۔۔۔۔انہوں نے بلدیاتی الیکشن لڑا اور گوجرانوالہ میں سب سے زیادہ ووٹ لیکر یوسی چیئرمین بنے۔۔۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے عزت کی میراث پائی ہے اور اسے خوب نبھا بھی رہے ہیں۔۔۔۔۔ڈاکٹر عمر نصیر کے ساتھ شناسائی تو تھی لیکن اٹوٹ انگ دوستی تجارت کے دفتر میں ہوئی۔۔۔سیالکوٹی دروازے کے پاس اس دفتر میں بھی کیا کیا "عجوبے” تھے کہ کمرہ قہقہوں سے گونج اٹھتا۔۔۔۔۔میں کوئی تیز سرخی جماتا تو مونچھ بردار سرفراز مہر صاحب گھبرا اٹھتے کہ اسے تھوڑا نرم کریں۔۔۔۔۔۔۔۔وہاں ہمارے مارکیٹنگ مینجر جناب خالد کیانی بھی کیا ہی بھلے مانس آدمی تھے۔۔۔۔۔۔۔وہ مسیحی تھے۔۔۔۔۔۔کبھی میں تو کبھی ڈاکٹر صاحب ان سے شغل کے طور پر روٹھ جاتے تو وہ ہمیں کبھی سموسے تو کبھی جلیبیاں کھلا کر منا لیتے۔۔۔۔۔پھر اس "ڈرامے”پر قہقہے لگتے۔۔۔۔بے تکلف ڈاکٹر عمر کی انہی دنوں بے تکلف سی شادی ہوئی۔۔۔۔۔پھر اللہ کریم نے انہیں دو بچے دان دیے۔۔۔۔۔۔۔۔اب اکلوتی بیٹی زرنم نور قیامت تک کا "وچھوڑا” دے گئی ہیں۔۔۔۔بیٹیوں کو چڑیوں کا "چنبھا” کہتے ہیں۔۔۔۔رسم دنیا ہے کہ بیٹیاں والدین کا گھر چھوڑ کر جاتی ہیں لیکن زرنم وہاں چلی گئی جہاں جانے والی بیٹیاں پھر کبھی اپنے ابا امی کو ملنے نہیں آتیں۔۔۔۔اب اکلوتا بیٹا احمد ان کی زندگی ہے۔۔۔۔۔۔جیے ہزار سال۔۔۔۔!!!