پاکستان پریس ریلیزاہم خبریں

پاکستان پنجاب:لاہور میں ٹریفک کی سنگین خلاف ورزیوں پر نیا قانون: اب صرف جرمانہ نہیں بلکہ ایف آئی آر درج ہوگی — سی ٹی او کا سخت اقدام، قانونی ماہرین متحرک

ان خلاف ورزیوں کو معمولی نہ سمجھا جائے کیونکہ یہ نہ صرف قانون شکنی بلکہ جان لیوا حادثات کا سبب بھی بنتی ہیں, سی ٹی او لاہور

(سید عاطف ندیم-پاکستان): لاہور کی سڑکوں پر بڑھتی ہوئی بے قاعدگی اور مہلک ٹریفک حادثات کو مدنظر رکھتے ہوئے چیف ٹریفک آفیسر (سی ٹی او) لاہور ڈاکٹر اطہر وحید نے ایک اہم اور سخت اقدام کا اعلان کیا ہے۔ اب شہر میں ٹریفک کی پانچ سنگین خلاف ورزیوں پر محض جرمانے نہیں، بلکہ مقدمات درج کیے جائیں گے اور ایف آئی آر کا اندراج ہوگا۔
سٹی ٹریفک پولیس لاہور کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق یہ فیصلہ شہر میں قانون کی خلاف ورزیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان کے خلاف عملی اقدام کے طور پر کیا گیا ہے تاکہ شہری نظم و ضبط قائم رکھا جا سکے۔
پانچ بڑی خلاف ورزیاں — ایف آئی آر لازمی:
ڈاکٹر اطہر وحید کے مطابق جن ٹریفک خلاف ورزیوں پر اب ایف آئی آر درج کی جائے گی، ان میں شامل ہیں:
ون وے کی خلاف ورزی
بغیر رجسٹریشن موٹرسائیکل رکشے یا ریڑھی نما گاڑیاں
اوورلوڈنگ (وزن سے زائد مال لے جانا)
غیرقانونی طور پر بنائی گئی یا خطرناک گاڑیوں کے ڈھانچے
کم عمر ڈرائیورز کا ڈرائیونگ کرنا
سی ٹی او لاہور نے کہا کہ ان خلاف ورزیوں کو معمولی نہ سمجھا جائے کیونکہ یہ نہ صرف قانون شکنی بلکہ جان لیوا حادثات کا سبب بھی بنتی ہیں۔ اب ان افراد کے خلاف فوری مقدمہ درج کیا جائے گا اور انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
کم عمر ڈرائیورز پر سخت مؤقف: “کسی رعایت کے مستحق نہیں”
سی ٹی او ڈاکٹر اطہر وحید نے کم عمر ڈرائیورز کے بارے میں سخت موقف اپناتے ہوئے کہا:
“یہ بچے نہ صرف اپنی جان بلکہ دوسروں کی جان کو بھی خطرے میں ڈالتے ہیں۔ اس سنگین غفلت پر کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔”
ان کا کہنا تھا کہ والدین کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا، کیونکہ نابالغ افراد کی گاڑی چلانے کی اجازت دینا ایک مجرمانہ غفلت ہے۔
شہری ردعمل اور قانونی حلقوں کا مؤقف
شہری حلقوں میں اس فیصلے کو ملے جلے ردعمل کا سامنا ہے۔ کچھ افراد اس اقدام کو انتہائی ضروری اور مثبت قدم قرار دے رہے ہیں جبکہ بعض اسے زیادتی یا افراط کا نام دے رہے ہیں۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے معروف وکیل مدثر چوہدری ایڈووکیٹ نے اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا:
“یہ اقدام عوامی سہولت کے نام پر سزاؤں کو سخت تر بنا کر شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ہم اس معاملے کو لاہور ہائی کورٹ یا ضرورت پڑی تو سپریم کورٹ تک لے جانے کے لیے تیار ہیں۔”
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کے لیے قانونی اصلاحات اور آگاہی مہمات کیوں نہیں چلائی جاتیں، اور کیوں ہر معاملے کو فوجداری کیس میں تبدیل کیا جا رہا ہے؟
کیا ایف آئی آر سے بہتری آئے گی؟ ماہرین کی رائے
ٹریفک ماہرین اور سماجی ماہرین کا ماننا ہے کہ لاہور جیسے بڑے شہر میں جہاں روزانہ لاکھوں گاڑیاں سڑکوں پر نکلتی ہیں، وہاں قانون کی سختی سے خلاف ورزیوں میں واضح کمی آ سکتی ہے۔
ٹریفک ماہر اور سابق ایس پی نوید بخاری کہتے ہیں:
"جب تک قانون شکن افراد کو یہ احساس نہیں ہوگا کہ ان کی لاپرواہی انہیں جیل تک پہنچا سکتی ہے، تب تک بہتری ممکن نہیں۔ یہ اقدام دیر سے سہی مگر درست سمت میں ایک قدم ہے۔”
دوسری جانب انسانی حقوق کے کارکنان اس فیصلے کو “سزا پر مبنی حکمرانی” قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سے غریب طبقے کو غیرمتناسب نقصان پہنچ سکتا ہے۔
نتیجہ: قانون سخت، آزمائش کا وقت
یہ اقدام لاہور کی سڑکوں پر قانون کا بول بالا قائم کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے۔ تاہم اس کے اثرات کا اندازہ آنے والے دنوں میں ہو گا کہ آیا ایف آئی آر کا خوف واقعی شہریوں کو قانون کا احترام سکھا پاتا ہے یا یہ فیصلہ بھی کاغذی کارروائی ثابت ہوگا۔
لاہور کے شہریوں کے لیے پیغام واضح ہے: اب ٹریفک قوانین توڑنے کا مطلب صرف چالان نہیں، بلکہ قانونی کارروائی اور مقدمے کا سامنا ہو سکتا ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button