حافظ شفیق الرحمنکالمز

پاک فوج کا ہر جوان سپاہی اور افسر زندہ باد……حافظ شفیق الرحمن

1971 ء میں مشرقی پاکستان کے محب وطن شہریوں پر اس وقت کے طاقتوروں نے کیا مظالم روا رکھے تھے ۔۔۔

موجودہ بھیانک منظر نامہ دیکھ کر پاکستان کے 25 کروڑ عوام کو 52 برسوں بعد ادراک و احساس ہو رہا ہے کہ 1971 ء میں مشرقی پاکستان کے محب وطن شہریوں پر اس وقت کے طاقتوروں نے کیا مظالم روا رکھے تھے ۔۔۔ خدا را ۔۔۔ پنجاب ، بلوچستان ، سندھ ، کے پی ، گلگت بلتستان ، فاٹا اور آزاد کشمیر کے عوام کے بولنے ، لکھنے اور اجتماع کرنے کے آئینی حقوق سلب نہ کرو۔ انہیں کھلی فضاؤں میں سانس لینے کی اجازت دو۔ وہ اظہار رائے کی آزادی اور بحیثیت انسان اپنا فطری بے ساختہ پن مانگتے ہیں۔

کچھ نہیں مانگتے ہم لوگ بجز اذن-کلام
ہم تو انسان کا بے ساختہ پن مانگتے ہیں

حریت فکر کے نقیب دانشوروں اور با شعور عوام کا مطالبہ ہے کہ شاہ زیب خانزادہ ، نجم سیٹھی ، کامران خان ، مجیب شامی ،غریدہ فاروقی ، منیزے جہانگیر ، ابصار عبد العلی ، انصار عباسی ،سلیم صافی ، طلعت حسین ، سہیل وڑائچ ، کامران شاہد ، منیب فاروق ایسے مرغان-؛باد نما کی باتوں میں نہ آؤ ۔ یہ صرف پیٹ سے سوچتے ہیں۔ یہ سب دسترخوان -گاڈ فادر کے راتب خور ہیں۔ ملک میں لفافہ جرنلزم اور بریفو کریسی ان کے دم قدم سے پروان چڑھی۔ راقم الحروف 1979ء سے دشت صحافت میں فقر-غیور کا زاد-راہ لیے آبلہ پائی کر رہا ہے ۔ راقم نے صحافت کے عظیم بطل جلیل آغا شورش کاشمیری کے افکار و نظریات اور صحافتی اقدار و روایات کو ہمیشہ اپنا مقتداء و پیشوا جانا ہے۔ ہفت روزہ چٹان میں اکابر سیاستدانوں کے انٹر ویو کیے۔ مختلف قومی روزناموں کے ادارتی صفحات کا انچارج رہا ۔ نوائے وقت ، خبریں ، دن اور نئی بات کے ادارتی صفحات پر میرے مطبوعہ کالم اسلامیت ، انسانیت اور پاکستانیت کے آئینہ دار رہے ہیں ۔ میں نے ہمیشہ آزادی افکار کو ملحوظ خاطر رکھا۔ یہ تعارفی الفاظ خدا گواہ ہے کہ قطعا خود ستائشی کے آئینہ دار ہیں اور نہ ہی میں نرگسیت کا مریض ہوں ۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ میں نے جن صحافیوں اور اینکر پر سنز کا ذکر کیا ہے ، ان کی اکثریت کے حدود اربعہ اور تاریخ جغرافیہ سے بہ خوبی واقف ہوں۔ اس اکثریت کے نوک قلم اور ہونٹوں پر سدا ایک ہی نعرہ رہا ہے:

ہم نے ہر دور میں سر کار کی خدمت کی ہے

اب یہ واشنگٹن رو ہو کر صبح و مسا خشوع و خضوع سے ایک ہی وظیفہ پڑھتے ہیں :

ہم نے ہر دور میں استعمار کی خدمت ہے

عوام کا خوف نہ ہو ہو تو یہ قلم فروش اور صدا فروش کلمہ ء طیبہ لا الہ الااللہ ترک کر کے قوم کے سامنے علانیہ لا الہ الا آلامریکا کا ورد کرنے کے فضائل بیان کرتے پائے جائیں۔ قوم کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہ قدیمی حلقہ بہ گوش-استعمار ہیں۔ بابائے صحافت مولانا ظفر علی خاں زندہ ہوتے تو ان کو ٹوڈی بچے کہہ کر پکارتے ۔۔۔ تف ہے میدان- صحافت کے ان ٹوڈی بچوں پر!

یہ امر ہر لحظہ پیش-نظر رکھو ! پنجاب ، کے پی ، فاٹا اور جی بی کے بیٹے آپ کی طاقت ہیں ۔ انہوں نے ہی قربانیاں دے کر آپ کے ادارے کو طاقتور اور معتبر بنایا ۔ یہ آپ کے جسد-قوت و طاقت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تمام پاکستانی گوادر سے گلگت تک آپ کے ادارے کے جوانوں سے محبت کرتے ہیں ۔۔۔ گو کہ وہ 18 ماہ سے مسلسل اور بلا توقف آپ کے باالواسطہ یا بلا واسطہ جبر و ستم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود ۔آج بھی ان کے ہونٹوں اور زبآنوں پر ” پاک فوج زندہ باد ” کا ولولہ انگیز نعرہ ہے۔ آخر تا بہ کے ؟

چوٹ پڑتی ہے تو پتھر بھی صدا دیتے ہیں۔

میں 1970 ء میں میٹرک کا طالب علم تھا ۔ تب سے یہ نعرہ ورد-زباں اور حرز-جاں ہے ۔ اپنے رویوں پر نظر-ثانی کرو اور ہر زبان پر اس نعرے کو تر و تازہ رہنے دو ۔۔۔ گردش-حالات نے اگر تمہیں فیصلہ ساز قوت بنا ہی دیا ہے تو ملک و قوم کے بہتر اور وسیع تر مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے ہوش و خرد سے کام لو اور تاریخ سے چشم پوشی نہ کرو۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ جولائی 1998ء کو نواز شریف بل کلنٹن کی کال پر بھاگم بھاگ امریکہ پہنچا۔ مرار جی دیسائی اور آر ایس ایس کو خوش کرنے کے لیے اس نے پاک افواج کے شہید جوانوں اور کیپٹن ضرار شہید اور کرنل شیر علی شہید کی میدان جنگ میں جیتی ہوئی جنگ بلئیر ہاؤس کی میز پر کلنٹن کے ساتھ معاہدہ واشنگٹن پر دستخط کر کے ہار دی ۔یوں اس نے بل کلنٹن کے ہاتھوں کارگل کے غازیوں اور شہیدوں کے مقدس لہو کا سودا کیا۔ شنید ہے کہ کارگل کے شہدا کے خون کے اس سوداگر کے ساتھ اسے چوتھی بار وزیر اعظم بنانے کے لیے آپ کی ڈیل چل رہی ہے۔ خدا را پاک افواج کے جوانوں کی قربانیوں اور شہیدوں کے خون کی بے حرمتی کرنے والے دنیا کے بد عنوان ترین شخص کو چوتھی بار اپنا ‘لاڈلا پلس’ بنانے اور ہمارے سروں پر مسلط کرنے کی احمقانہ غلطی سے باز آجاؤ ۔۔۔ مومن کو ایک سوراخ سے دو بار ڈسا نہیں جا سکتا اور آپ ہیں کہ اس سانپ کو چوتھی بار بھی دودھ پلانے پر تلے ہوئے ہو۔ اگر یہ سچ ہے تو شدید عوامی رد عمل کا سامنے آنا حب الوطنی اور پاک فوج سے محبت کا فطری تقاضا ہوگا۔ عوام کی نبضوں پر ہاتھ رکھو ، تازہ ترین قومی و بین الاقوامی سروے بار بار پڑھو ۔ ان سرووں کے مطابق نواز کے ساتھ دس فیصد ووٹرز بھی نہیں ۔
آج ہی دیر بالا میں آپ پی ٹی آئی کے کارکنوں کا جوش و خروش دیکھ چکے ہو ۔ پابندیاں اور جکڑ بندیاں اٹھاؤ اور اسلام آباد کی حدود میں تعینات پوری پنجاب پولیس کو اذیت میں مبتلا نہ کرو ۔۔۔۔ لاہور ، فیصل آباد ، گوجرانوالہ ، سیال کوٹ ، نارووال ، گجرات ، جہلم ، راولپنڈی ، مری ، میانوالی ، چکوال ، اٹک ، بھکر ، خوشاب ، لیہ ، ڈیرہ غازی خان ، رحیم یار خان ، اوکاڑہ ، ساہیوال ، ملتان ، لودھراں ،بہاول پور ، پشاور ، مردان ، نوشہرہ ، صوابی ، بنوں ، اکوڑہ خٹک ، ہری پور ہزارہ ، ایبٹ آباد ، مانسہرہ ، سوات ، شوال ، خیبر ایجنسی ، مہمند ایجنسی ، کراچی ، حیدر آباد ، سکھر ، شکار پور ، سانگھڑ ، لاڑکانہ ، نواب شاہ ، کوئٹہ ، قلات ، مکران ، ژوب ، مستونگ ، نصیر آباد ، کی زنجیریں کھول دو اور تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کا جوش و جذبہ دیکھو ۔ اظہار مسرت کرنا کہ پاک فوج کی عزت کرنے والے پاکستانی عوام زندہ و متحرک اور بیدار و باشعور ہیں۔
فرمان-امروز تو یہی ہے کہ جہاد- آزادی – کشمیر کا اعلان کر کے سری نگر مارچ شروع کرو ۔۔۔ دیکھنا کئی ملین عوام تمہارا ہراول دستہ ہوں گے ۔۔۔ جہاں تمہارا پسینہ گرے گا وہاں عوام اپنی شہ رگ کا سرخ خون نچھاور کریں گے۔ چھمب ، جوڑیاں ، سوپور ، جموں اور سری نگر کی جانب قدم تو اٹھاؤ ! جہاد- آزادی- مقبوضہ کشمیر کے لیے عوام تمہارے ہر طرف سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑے ہوں گے۔ پاکستان تب تک جسد-نامکمل ہے ، جب تک شہ رگ-پاکستان بھارتی چنگل میں ہے۔
سنو آج بھی ہمارا نعرہ یہی ہے:

شہدائے کارگل کے خون کا سوداگر نواز مردہ باد
پاک فوج کا ہر غازی اور جوان افسر زندہ باد

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button