حیدر جاوید سیدکالمز

” پھولوں کو پسند کرنے والی ” …حیدر جاوید سید

وجہ ایک آدھ نہیں کئی ہیں۔ بڑی وجہ زندگی سے بڑھتی ہوئی بیزاری ہے اور خود اس کی کئی وجوہات ہیں۔

لیجئے بالآخر کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے، ہم نے دوبارہ مطالعہ کا آغاز کردیا۔ ایسا شخص جو کئی عشروں سے 50 سے 100 گاہے اس سے زیادہ صفحات روزانہ عبادت کی طرح پڑھنے کا عادی ہو وہ اڑھائی ماہ کتابوں کے درمیان (اپنی لائبریری میں) بیٹھ کر بھی اخبارات کے سوا مطالعہ نہ کرپائے تو کوئی نہ کوئی وجہ ضرور رہی ہوگی۔
وجہ ایک آدھ نہیں کئی ہیں۔ بڑی وجہ زندگی سے بڑھتی ہوئی بیزاری ہے اور خود اس کی کئی وجوہات ہیں۔
خیر چھوڑیں ہم کتاب کی بلکہ یوں کہہ لیجئے بیٹی کی باتیں کرتے ہیں۔ ہمارے ملتانی برادر عزیز شاکر حسین شاکر نے اپنی صاحبزادی کی یادوں سے گندھی اپنی تصنیف ’’ساڈا چڑیاں دا چنبہ‘‘ کچھ دوسری کتابوں کے ساتھ چند ماہ قبل بھجوائی تھی۔ شاکر حسین شاکر ایک مہربان و محسن دوست صاحب علم وسیع المطالعہ شاعر ا دیب نقاد دوستوں کا دوست ہے۔ ہمیں بہت سارے حوالوں سے عزیز ہے ان حوالوں میں بلند بخت حوالہ ملتان ہے۔
اچھا ہم آستانہ عالیہ حیدریہؑ حسینیہؑ کتاب نگر ملتان کینٹ والے شاکر حسین شاکر کی باتیں کسی اور وقت کے لئے اٹھارکھتے ہیں آج صرف اس کی کتاب ’’ساڈا چڑیاں دا چنبہ‘‘ کی باتیں کرتے ہیں۔
کتاب کیا ہے، ہر ہر سطر بیٹی کی محبت کی مہک محسوس ہوتی ہے۔ شاکر حسین شاکر نے کتاب کے انتساب والے صفحے پر انتساب اور شعر
انجم و مہر و ماہتاب سرو و صنوبر و گلاب
کس سے تجھے مثال دوں ہو تو کوئی مثال بھی
کے درمیان صفحہ پر خاصی جگہ خالی چھوڑدی اور شعر جو کہ خالصتاً بیٹی سے محبت کا اظہار ہے یوں کہہ لیجئے یہ شعر بیٹی کا تعارف بھی ہے۔
اس شعر کے بعد لکھا ’’میں نے اوپر انتساب کی جگہ خالی چھوڑدی ہے آپ اپنی بیٹی کا نام لکھ کر یہ کتاب اس کے نام منسوب کرسکتے ہیں‘‘۔
دسمبر کے آخری ہفتے یا اگلے برس جنوری میں جب میری بیٹی امریکہ سے آئے گی تو میں اس کتاب کے انتساب والے صفحہ پر اس کا نام سیدہ فاطمہ حیدر لکھ کر اسے باپ اور چچا کی طرف سے مشترکہ تحفہ دوں گا۔
66 برس کے سفر حیات میں مطالعہ کرتے 55 برس ہوگئے ان 55 برسوں میں بے حساب کتابیں پڑھیں جوانی کے جو برس ہم نے جیلوں میں گزارے ان دنوں ہفتہ وار ملاقات پر آنے والی بہنوں اور ایک دو دوستوں سے کتابوں کی فرمائش کرتے تھے والد بزرگوار نے بھی ان دنوں ہمیں چند کتابیں عنایت کیں اس سے اگلے ہفتے ہمارے بھیا ابو ( مرحوم و مغفور ) ہماری بھابی امی کے ہمراہ جیل میں ملاقات کے لئے آئے تو ان سے عرض کیا ، ” ابا جان نے پچھلے ہفتے 6 کتابیں دیں ساری جماعت اسلامی، اسلام اور مسلمانوں سے متعلق ہیں۔ بھیا ابو جی بھلا اب ہمارے مسلمان ہوجانے سے عالم اسلام کو کیا فائدہ ہوسکتا ہے۔ یہ کتابیں آپ واپس لیتے جائیں‘‘۔
انہوں نے مسکراکر دیکھا اور بولے باوے (وہ ہمیشہ اسی نام سے مخاطب کرتے تھے) تو تمہارا فیصلہ یہ ہے کہ تم سدھرنے کے نہیں۔ پھر ہم دونوں بھائی ہنس پڑے۔ ملاقاتی جنگلے پر موجود دوسرے سیاسی قیدیوں اور ان کے ملاقاتیوں نے ہمیں حیرانی سے دیکھا۔
بیٹی کی یادوں سے بھری شاکر حسین شاکر کی کتاب کے حرف حرف کی خوشبو اپنے حصار میں لئے ہوئے ہے۔ یہ آج تک پڑھی جانے والی کتابوں میں سے پہلی کتاب ہے جسے پڑھتے ہوئے آنکھوں میں آنسو اتر آئے۔ کتاب پڑھتے ہوئے علم ہوا ہماری بھتیجی عنیزہ فاطمہ دختر شاکر حسین شاکر کا جنم دن 28 نومبر ہے اور اسے گلابی رنگ پسند ہے۔ حسن اتفاق سے ہماری صاحبزادی سیدہ فاطمہ حیدر کا جنم دن بھی 28 نومبر ہے اور اسے گلابی رنگ اتنا پسند ہے کہ بچپن میں اس کا بس چلتا تو پوری دنیا کوگلابی گلابی کردیتی۔
بیٹی کی محبتوں اور یادوں سے گندھی ہوئی یہ کتاب پڑھتے ہوئے ہر قاری کے دل و دماغ پر اپنی بیٹی کی پیدائش، نام رکھنے، پائوں پائوں چلنے، سالگراہیں پھر سکول کا پہلا دن اور دن پہ گزارتے ہر دن کی یادیں دستک دینے لگیں گی۔
شاکر حسین شاکر نے اس تصنیف میں جہاں اپنی نورالعین عنیزہ فاطمہ کی محبت میں گندھی یادیں تازہ کی ہیں وہیں اس نے دوستوں جاننے والوں علم و ادب کی دنیا کے چند بڑے لوگوں کی اس حوالے سے یادیں اور باتیں تو لکھی ہی ہیں اس کے ساتھ چند دلچسپ واقعات جو خالصتاً بیٹیوں کے معصوم بچپن کے دنوں کے ہوتے ہیں بھی لکھے ہیں ۔
شبنم شکیل کی گڑیا کی فیض احمد فیض سے شادی کا قصہ۔ اصلی دولہے گڈے کی ٹانگیں ٹوٹ جانے کا واقعہ۔ اسی طرح بیٹیوں کے حوالے سے لکھی گئی کچھ نظمیں ہیں مثلاً فیضی کی نظم
’’میرے لئے تو ابا خود کوبھی بیچ ڈالے گا، مگر میں پوچھتی ہوں، میری خوشیوں کے پلڑے میں اگر نصیب کم پڑگیا تو، کیا وہ بھی ابا مجھے لادے گا’’۔
کتاب کی سطر سطر دلچسپ محبتی خوشبو، رنگوں، موسموں اور یادوں سے عبارت ہے۔ تنویر انجم کی نظم ’’خوف‘‘ نے طالب علم کو رلاکر رکھ دیا۔ نظم کی اختتامی سطور ہیں
’’میں نہیں چاہتی کہ وہ کسی دن اسے ملکہ بنادیں، وہ اسے تخت پر بٹھادیں جہاں میں اس سے ملنے نہ جاسکوں اور جب رات آئے، میں اسے جھولا نہ جھلاسکوں، میں نہیں چاہتی ہوں میری ننھی بیٹی کو ملکہ بنائیں‘‘۔
شاکر کی محترمہ فاطمہ ثریا بجیا سے ملاقات کا احوال بھی دلچسپ ہے۔ مستنصر حسین تارڑ کی بات بہت گہری ہے ’’بیٹے اپنے دوستوں اور کتوں کے بارے میں فکر مند ہوتے ہیں اور یٹیاں اپنے ابو کے کھانے کے بارے میں‘‘۔
چند دن ادھر کی ایک شام ڈھلے ہماری بیٹی فاطمہ حیدر کا فون آیا اس نے پوچھا بابا جانی کیا کررہے ہیں؟ میں نے کہا بابا کی جان سگریٹ پی رہا تھا تمہارے ڈر سے بجھادیا۔ کہنے لگی ویری گڈ ڈرتے رہنا چاہئے صحت کے لئے اچھا ہوتا ہے ‘‘ پھر ہم دونوں ہنس پڑے۔
کتاب پڑھتے ہوئے یاد آیا کہ فاطمہ کی پیدائش سے قبل جب اس کی ماں ہسپتال میں داخل تھی تو ہسپتال کے قریب کے ایک بوائز ہائی سکول کے معلم اور سکول میں قائم مسجد کے خطیب ہمار مرحوم دوست حافظ ریاض احمد درانی (حافظ صاحب جمعیت علمائے اسلام ف کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات بھی رہے) کی اہلیہ نے اپنے شوہر سے پوچھا، حیدر بھائی نے بیٹی کا نام کیا رکھا فون کر کے پتہ ہی کرلیں۔
انہوں نے جواب دیا یہ کوئی پوچھنے کی بات ہے وہ خدیجہ، فاطمہ،زہرا، زینب نام رکھیں گے۔ یہ بات ہورہی تھی کہ میں نے ان کے دروازے پر دستک دی کھانے اور چائے کے برتن واپس کرنے گیا تھا۔ حافظ ریاض درانی دروازے پر آئے پہلا سوال یہ تھا شاہ جی بیٹی کا نام کیا رکھا؟ سیدہ فاطمہ حیدر، میں نے جواب دیا۔ انہوں نے گھر کے صحن کی طرف منہ کرکے اہلیہ کو پشتو میں بتایا میرا اندازہ درست رہا بیٹی کا نام فاطمہ رکھا ہے۔
میں فاطمہ کا نام دعائے زینب رکھنا چاہتا تھا مگر میری بھانجیوں کے لشکر نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا، حیدر ماموں ہم نے اس کا نام فاطمہ حیدر رکھ دیا ہے بس مزید کوئی بات نہیں ہوگی۔ بھانجیوں بھانجوں کے اس لشکر جرار کے سامنے ایک اکیلے حیدر ماموں کی کیا چلتی کچھ بھی نہیں۔
شاکر حسین شاکر کی کتاب پڑھتے ہوئے سطر سطر یہی محسوس ہوا کہ میں فاطمہ حیدر کو اس کے بچپن کی داستان سنارہا ہوں۔ جب وہ فون کر کے اول اول کہتی تھی بابا آجائو ، بابا آجائو، میں پشاور سے دوڑا چلا آتا۔ (ان دنوں پشاور کے اخبار میں کام کرتا تھا) کچھ بڑی ہوئی تو نصف شب میں فون کرکے کہتی بابا جانی مجھے نہیں پتہ ابھی اور اسی وقت آئیں۔ میں پشاور، راولپنڈی، ملتان، لاہور یا جہاں بھی ہوتا شیخوپورہ کے لئے روانہ ہوجاتا۔ ایک آدھ بار کے علاوہ میں ہمیشہ اس کے سکول جانے سے قبل گھر پہنچ جاتا تب اس کے چہرے پر پھیلتی روشنی اور مسکراہٹ دونوں مل کر سرشار کردیتے۔
ماضی میں میرے کچھ رشتہ دار جب اولاد نرینہ (بیٹے) کی دعا دیتے تو مجھے بہت غصہ آتا تھا ایک معزز و محترم بلند مرتبہ صاحبزادی جو خاتون جنتؑ قرار پائی ہو کی اولاد بیٹیوں کے معاملے میں اتنی تنگ نظر کیوں ہے۔
لیکن میرا سچ یہ ہے کہ میں اس پر خوش ہوں کہ ” میری بیٹی میری زینت تعارف فخر اور میری وارث ہے ” ۔
شاکر حسین شاکر کی نورالعین عنیزہ فاطمہ اپنی دختر سیدہ فاطمہ حیدر سمیت کل جہان کی بیٹیوں کی صحت و سلامتی اور علم و رزق میں فراوانی کی ڈھیروں دعائیں۔ بیٹیوں کی خوشبوئوں سے ہر ماں باپ کا آنگن مہکتا رہے آمین۔
پس نوشت: کالم کا عنوان کتاب کے نام پے رکھنے کی بجائے میں نے عنیزہ فاطمہ کے نام کا مطلب "پھولوں کو پسند کرنے والی” رکھا ہے۔ بیٹی بھی تو پھول ہی ہے اس کی خوشبو والدین کے لئے زندگی کی نوید

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button