پاکستانتازہ ترین

پاکستان سے افغان مہاجرین کی ملک بدری کا عمل تیز

پاکستان نے غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین سے کہا تھا کہ وہ مارچ کے اختتام تک اپنے ملک واپس چلے جائیں، ورنہ بصورت دیگر مقررہ وقت ختم ہونے کے بعد انہیں ملک بدری کا سامنا کرنا پڑے گا۔

(سید عاطف ندیم-پاکستان): پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے کے مطابق یکم اپریل سے اب تک تقریبا نو ہزار افغان شہریوں کو ملک بدر کیا گیا۔ ادھر طالبان حکومت نے پاکستان پر افغانوں کو جبرا ملک سے نکالنے کا الزام لگایا ہے۔
پاکستان کی جانب سے 31 مارچ کی دی گئی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد سے ملک میں موجود غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو واپس بھیجنے کا سلسلہ جاری ہے اور وطن واپسی کی تازہ مہم میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ہزاروں پناہ گزینوں کو پکڑ کو ملک بدر کیا جا چکا ہے۔
پاکستان نے غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین سے کہا تھا کہ وہ مارچ کے اختتام تک اپنے ملک واپس چلے جائیں، ورنہ بصورت دیگر مقررہ وقت ختم ہونے کے بعد انہیں ملک بدری کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پناہ گزینوں نے سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں مقیم آٹھ لاکھ افغانوں کے پاس ریزیڈنسی اجازت نامے ( اے سی سی) کارڈز تھے، جنہیں منسوخ کیا جا چکا ہے۔
منگل کے روز اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے نے اطلاع دی کہ یکم اپریل سے کم از کم 8,906 افغان شہریوں کو ملک بدر کیا جا چکا ہے۔
پاکستانی حکومت کے ایک اہلکار نے بھی اس اقدام کی تصدیق کرتے ہوئے کہا، "ہماری مہم زور پکڑ رہی ہے اور غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاؤن تیز کر دیا گیا ہے۔”
ادھر پڑوسی ملک افغانستان میں طالبان کی حکومت نے منگل کے روز ہی پاکستان کی جانب سے افغانوں کو ملک سے نکالنے کے لیے استعمال کیے جانے والے "تشدد” کی مذمت کی۔
طالبان کی وزارت برائے مہاجرین نے وطن واپسی کے عمل کو آسان بنانے کے لیے مشترکہ معاہدے پر زور دیتے ہوئے سوشل میڈیا ایکس پر لکھا: "ہمسایہ ممالک کی طرف سے ان (افغانوں) کے ساتھ ناروا سلوک ناقابل قبول اور ناقابل برداشت ہے۔”
طالبان کی وزارت نے مزید کہا، "انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ افغان مہاجرین کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ تمام پناہ گزینوں کو اپنی دولت، سامان اور گھریلو ساز و سامان اپنے ساتھ اپنے ملک لے جانے کی اجازت ہونی چاہیے۔”
طالبان کی وزارت برائے مہاجرین کا مزید کہنا تھا، "کسی کو بھی مہاجرین کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے۔”
انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ اتوار اور پیر کو اوسطاً 4,000 افغانوں نے پاکستان سے سرحد عبور کی، جو کہ مارچ کے مہینے میں یومیہ اوسط صرف 77 سے کہیں زیادہ ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ تقریباً 30 لاکھ افغان پاکستان میں رہتے ہیں، جس میں سے تقریبا آٹھ لاکھ کے ریزیڈنسی کارڈ (اے سی سی) اپریل میں منسوخ کر دیے گئے تھے۔
ادارے کے مطابق تقریبا 13 لاکھ افغان پناہ گزینوں کے پاس یہ رہائشی اجازت نامے اب بھی آئندہ 30 جون تک موجود ہیں، کیونکہ وہ اقوام متحدہ کے تحت رجسٹرڈ ہیں۔
حالیہ دنوں میں سرحد پار کرنے والے افغانوں نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ وہ اپنا سارا سامان یا رقم لے جانے کے قابل نہیں تھے اور اسے چھوڑ کر پاکستان سے واپس آ گئے، جبکہ بعض دیگر کو پکڑ کر براہ راست سرحد پر لے جایا گیا۔
پاکستان نے 2023 میں افغان مہاجرین کی بڑے پیمانے پر ملک بدری کا آغاز کیا تھا۔ اسلام آباد کا کہنا ہے کہ یہ مہم اس کوشش کا حصہ ہے جس کا مقصد غیر قانونی طور پر ملک میں مقیم تارکین وطن کو روکنا ہے۔
انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 18 ماہ کے دوران تقریباً ساڑھے آٹھ لاکھ افغان پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ اب بھی تیس لاکھ افغان ملک میں باقی ہیں۔
افغانستان ہیومن رائٹس واچ کی فریشتہ عباسی نے کہا، "پاکستان لوگوں کو وہاں واپس نہ بھیجنے کے اپنے ہی بین الاقوامی عہد کو ترک کر رہا ہے، جہاں ان کے حقوق خطرے میں ہیں۔”
گزشتہ تین سالوں کے دوران پاکستان کے اپنے پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے ہیں۔ اسلام آباد افغانستان میں طالبان حکام کو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی کارروائیوں کو کنٹرول کرنے میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ ٹی ٹی پی ایک عسکریت پسند گروپ ہے، جو سن 2007 سے ہی پاکستانی سکیورٹی فورسز پر متعدد حملے کرتا رہا ہے۔
طالبان حکومت کے ساتھ سرحد پار کشیدگی بڑھنے کے بعد سے پاکستان میں افغانوں کی مبینہ گرفتاریوں کی اطلاعات کے درمیان افغانوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں بھی خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ علاقے میں افغان باشندے زیادہ انسانی سلوک کے مستحق ہیں۔
ادھر پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ ان لاکھوں افغانوں کی وطن واپسی کی مہم کو تیز کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جنہوں نے اپنے آبائی ملک میں کئی دہائیوں کے مسلح تصادم کے دوران اور 2021 میں طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سرحد عبور کی تھی۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button