
تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل حامد خان نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’قانون حکومت کو کمیشن بنانے کی اجازت دیتا ہے۔ ان کے مطابق عموماً ایسے کمیشن تشکیل دینے قبل نہ صرف متعلقہ فریقین کو اعتماد میں لیا جاتا ہے بلکہ چیف جسٹس آف پاکستان سے بھی رائے لی جاتی ہے۔‘
ان کے مطابق جب سنہ 2015 میں اس وقت کے چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں ایک تین رکنی جوڈیشل کمیشن سنہ 2013 کے انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیا گیا تھا تو اس میں میں فریقین کی رضامندی حاصل کی گئی تھی۔
ان کے مطابق ’اس کمیشن پر سب کا اعتماد بھی تھا۔ ان کی رائے میں عام طور پر چیف جسٹس سے کہا جاتا ہے کہ آپ یہ جوڈیشل کمیشن تشکیل دے دیں اور اس مقصد کے لیے سپریم کورٹ کا جج مقرر کر دیں۔‘
حامد خان کے خیال میں اس کمیشن کی جس طرح تشکیل ہوئی ہے ’اس سے لگتا ہے کہ حکومت چاہتی ہے کہ ان (ججز) کی آپس میں ٹینشن بڑھ جائے اور اگر ججز میں کوئی اختلافات ہیں بھی تو اس کو بڑھاوا دیا جائے اور ان کو لڑایا جائے۔‘
حامد خان کے مطابق ’ابھی تک تو یہ بھی نہیں معلوم کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ حکومت کی طرف سے تشکیل دیے گئے کمیشن کی سربراہی کے لیے رضامند بھی ہیں یا نہیں۔‘