اہم خبریںپاکستانتازہ ترین

کوئٹہ میں سکیورٹی گارڈ کی فائرنگ سے نوجوان قتل، تربیت کا فقدان یا ذہنی دباؤ؟

پولیس کا کہنا ہے کہ اعتراف جرم کے بعد عدالت نے ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے تاہم اہلخانہ کا کہنا ہے کہ صرف سکیورٹی گارڈ ہی نہیں بلکہ بینک کے منیجر کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔

جنّت خاتون جب اپنی تنخواہ لینے کی غرض سے بینک جانے کے لیے گھر سے نکلی تھیں تو اُن کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ اُنہیں بینک سے رقم نہیں بلکہ اپنے بیٹے کی لاش ملے گی۔
یہ واقعہ جون بروز جمعہ کوئٹہ کے علاقے ارباب کرم خان روڈ پر واقع ایک نجی بینک میں پیش آیا جہاں بینک کے سکیورٹی گارڈ نے جنّت خاتون کی آنکھوں کے سامنے اُن کے جواں سالہ بیٹے کو گولی مار دی۔
پولیس نے سکیورٹی گارڈ کو گرفتار کرکے اس کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرلیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اعتراف جرم کے بعد عدالت نے ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے تاہم اہلخانہ کا کہنا ہے کہ صرف سکیورٹی گارڈ ہی نہیں بلکہ بینک کے منیجر کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔
افسوسناک واقعے کے بعد سکیورٹی گارڈز کے رویوں، اضافی ڈیوٹیوں، کم تنخواہوں کے باعث اُن کی ذہنی حالت، تربیت اور نجی سکیورٹی کمپنیوں کی جانب سے گارڈز کی بھرتیوں کے نظام پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
سیکورٹی گارڈز کی تربیت کا فقدان
معمولی تکرار پر ایک نہتے شہری کو گولی مارنے کے اس واقعے نے کئی سوالات کو بھی جنم دیا ہے۔
کیا عوامی مقامات پر تعینات سکیورٹی اہلکار تربیت یافتہ ہوتے ہیں؟ کیا انہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ شہریوں کے ساتھ کیسے پیش آنا ہے؟ اگر شہری مشتعل ہو جائیں تو ایسے میں اُنہیں کیسے معاملے کو سُلجھانا چاہیے؟
کوئٹہ میں بطورمحافظ خدمات سرانجام دینے والے عبدالقادر نے بتایا کہ انہوں نے پانچ سال تک مختلف کمپنیوں میں کام کیا لیکن اس دوران کسی بھی کمپنی نے انہیں کوئی تربیت فراہم نہیں کی۔ ’صرف زبانی طور پر تلاشی لینے اور ڈاکوؤں کے حملے کی صورت میں احتیاطی تدابیر بتائی گئیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’سکیورٹی کمپنیوں کو اہلیت نہیں کم تنخواہ لینے والے لوگ چاہیے ہوتے ہیں۔ کمپنیاں کسی بھی ضرورت مند کو وردی پہنا کر اور اسلحہ تھما کر ڈیوٹی پر بھیج دیتی ہیں۔‘
عبدالقادر کا کہنا ہے کہ گارڈز سے بارہ گھنٹے سے زائد کی ڈیوٹی لی جاتی ہے اور ہفتہ تو دور مہینے میں بھی کوئی چھٹی نہیں ملتی۔ ’عید کی چھٹی کرنے پر بھی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے، اضافی وقت ڈیوٹی کرنے کی کوئی اجرت نہیں دی جاتی۔‘
اُن کے بقول لمبی ڈیوٹیوں، کم تنخواہوں اور چھٹیاں نہ ہونے کی وجہ سے مہنگائی سے پریشان سکیورٹی گارڈز ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔
’ہسپتالوں، سکولوں، بینکوں اور دیگر عوامی مقامات پر تعینات سکیورٹی گارڈز کے ساتھ بعض لوگوں کا رویہ بھی توہین آمیز ہوتا ہے۔ یہ تمام عوامل سیکورٹی گارڈز کی ذہنی حالت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان کے پاس لوڈڈ اسلحہ ہوتا ہے ایسے میں وہ معمولی بات پر بھی غصے میں آکر انتہائی قدم ا’ٹھا لیتے ہیں۔‘
آل پاکستان سیکورٹی ایجنسیز ایسوسی ایشن (اے پی ایس اے اے ) کے چیئرمین کرنل ریٹائرڈ توقیر السلام نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ’گلی کوچوں میں دفاتر کھول کر بننے والی چھوٹی سکیورٹی کمپنیوں میں سکیورٹی گارڈز کی تربیت کا فقدان ہے۔‘
ان کے بقول ایسا حکومت بلوچستان کی پالیسی کی وجہ سے ہے جس نے سکیورٹی کمپنیوں کے لائسنس کے لیے معیار کو یقینی نہیں بنایا۔ ’ملی بھگت سے این او سی لے کر راتوں رات کمپنی بنالی جاتی ہے اور رجسٹریشن نہیں کرائی جاتی۔‘
کرنل ریٹائرڈ توقیر السلام نے بتایا کہ ایسوسی ایشن سے 300 سے زائد کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں جو سخت کوڈ آف کنڈیکٹ کی پابند ہیں۔ ’ہم نے گارڈز کی جسمانی و ذہنی تربیت، کوائف کی جانچ پڑتال اور حکومتی مقرر کردہ حد کے مطابق تنخواہ کی فراہمی کو لازمی قرار دیا ہے اس لیےچھوٹی کمپنیاں ہم سے رجسٹریشن کرانے سے کتراتی ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’بلوچستان میں ہمارے ساتھ صرف وہ کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں جو ملک کے باقی صوبوں میں بھی کام کرتی ہیں۔‘
کرنل ریٹائرڈ توقیر السلام نے مزید بتایا کہ لاہور اور کراچی میں نجی سیکورٹی کمپنیوں کے گارڈز کی تربیت کے لیے باقاعدہ ٹریننگ سکول ہے لیکن بلوچستان میں ایک بھی نہیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ ’بلوچستان حکومت سکیورٹی کمپنیوں کے لائسنس کے اجراء کے عمل کو سخت کرے تاکہ سکیورٹی گارڈز کو تربیت اور انہیں سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔‘

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button