
وزیر دفاع "کس” سے مخاطب تھے؟….امجد عثمانی
یہ بھی ہماری "مبینہ جمہوریت "کی ہی انفرادیت ہے کہ ہمارے" وزیر مشیر" اپنے کام کے علاؤہ سب کام "خوب"کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔مثال کے طور پر وزیر دفاع دفاعی امور کے علاوہ تمام قومی مسائل پر" لب کشائی" کرتے ہیں۔۔۔۔
کئی دن سے سوچ رہا تھا کہ کسی صبح سویرے لاہور کے کسی چوک چوراہے پر جا کھڑا ہوں اور وہاں دو وقت کی روکھی سوکھی روٹی کی تلاش میں "درماندہ مزدوروں” کے چہرے پڑھوں اور پھر ملک میں پھیلی الم ناک بھوک اور ننگ کا "چہرہ” لکھوں۔۔۔۔۔۔۔۔اقبال ساجد کا یہ شعر کسی ایسے ہی منظر کی عکاسی کرتا ہے:
مہنگی ہیں گر کتابیں تو چہرے پڑھا کرو
قدرت نے جو لکھے ہیں وہ کتبے پڑھا کرو
اچھا ہوا کہ وزیر دفاع جناب خواجہ آصف نے بھری مجلس میں یہ” نوحہ”کہہ دیا اور مجلس بھی ملک کی مجلس شوری۔۔۔۔۔انہوں نے بدھ کے روز حسب معمول قومی اسمبلی کے فلور پر "دھواں دھار خطاب” کیا اور جوش خطابت میں کرپشن کی کئی کہانیاں کہہ ڈالیں۔۔۔۔اس دن وہ وزیر دفاع کے بجائے وزیر احتساب لگ رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔یہ بھی ہماری "مبینہ جمہوریت "کی ہی انفرادیت ہے کہ ہمارے” وزیر مشیر” اپنے کام کے علاؤہ سب کام "خوب”کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔مثال کے طور پر وزیر دفاع دفاعی امور کے علاوہ تمام قومی مسائل پر” لب کشائی” کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔وزیر خزانہ معاشی مسائل کے علاؤہ ہر مسئلے کا حل "جیب” میں لیے پھرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔وزیر خارجہ "سیاحت” کو سفارت سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔کئی بار یہ خیال بھی آتا ہے کہ قائد اعظم کے پاکستان میں "مبینہ جمہوری نظام "کے تحت وزیر اعظم صاحب ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وزیر دفاع ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وزیر خارجہ اور وزیر داخلہ ہوتے ہیں۔۔۔۔۔وزیر خزانہ اور وزیر تجارت ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔وزیر حج اور مذہبی امور ہوتے ہیں۔۔۔۔۔بے شمار وزیر اور مشیر ہوتے ہیں تو اتنی فوج ظفر موج کے ساتھ ساتھ ایک "وزیر عوام” کیوں نہیں کہ وہ عام آدمی کو بتائے کہ بھولے بادشاہو۔۔۔۔۔۔۔!وزیر اعظم صاحب دستیاب نہیں ہو سکتے کہ عالی جاہ ملک چلائیں یا آپ عوام کی بات کریں؟وزیر دفاع ملک کے سکیورٹی مسائل دیکھیں یا آپ لوگوں کی بات کریں ۔۔۔۔وزیر خارجہ اور وزیر داخلہ ملک کے اندرونی اور بیرونی امور دیکھیں یا آپ غریبوں کی بات کریں۔۔۔۔۔۔وزیر خزانہ ملک کا خزانہ دیکھیں یا آپ” افلاسیہ” کی بات کریں۔۔۔۔۔۔ وزیر حج حجاج کرام کو سنبھالیں یا آپ بھوکے ننگوں کی بات سنیں۔۔۔۔۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی کہ بات تو ہورہی تھی وزیر دفاع کے قومی اسمبلی میں کہے ایک”نالے” کی۔۔۔۔۔۔۔۔خواجہ آصف نے صاحب نے ایوان زیریں میں اظہار خیال کرتے "اعتراف” کیا کہ ملک کی 80 فیصد آبادی دو وقت کا کھانا نہیں کھاسکتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خواجہ آصف نے یہ انکشاف بھی کیا کہ کمپنیاں 500 ارب کا ٹیکس چوری کر رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے کہا کہ رئیل اسٹیٹ میں 500 ارب اور چائے درآمد کرنے میں 45 ارب کی ٹیکس چوری ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔موبل آئل میں 65ارب روپے کی چوری ہوتی ہے ہے۔۔۔۔۔۔جی ایس ٹی وغیرہ 2880ارب روپے کی چوری ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ یارن میں 250 ارب روپے کی چوری ہے۔۔۔۔۔ ہماری 2 وزارتیں ایک ہزار ارب روپے خسارہ کررہی ہیں۔۔۔۔۔۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں بڑے پیمانے پر بجلی چوری ہو رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔اس وقت 4 ہزار ارب روپے بجلی کا سرکلر ڈیٹ ہے ۔۔۔۔۔۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ یوٹیلیٹی اسٹورز پر ایک بہت بڑا سکینڈل پیدا ہورہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غربت ختم کرنے کے نام پر آنے والے وہ لوگ ہیں جو خود پہلے خود اربوں روپے بناتے ہیں۔۔۔۔۔انہوں نے کہا کہ ملک میں لوٹ مار کا بازار گرم ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔۔۔۔۔۔۔ایسے ایسے لوگ ہیں جن کا ٹی وی چینلز پر نام نہیں لے سکتے۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے کہا کہ ڈاکو اس ملک میں قوم کو تعلیم دے رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔یونیورسٹیوں کا طبقہ ہے جن کے وائس چانسلرز کرپشن کر کے ارب پتی بن گئے ہیں۔۔۔۔انہوں نے کہا کہ یہاں دلہن کو دو کروڑ کا جوڑا دیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔پنجاب کے ایک وزیر اعلی اربوں کرپشن کرکے لندن چلے گئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وزیر دفاع نے کہا کہ عدلیہ اس سارے جرم کے نظام میں ملوث ہے۔۔۔۔۔۔۔۔عدالتوں میں ٹیکس کے 1300ارب روپے کے مقدمات پر حکم امتناعی پڑے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ خواجہ آصف نے کہا کہ ایک چیف جسٹس کی جتنی تنخواہ ہے۔۔۔۔اس کا چوتھائی ہی ہمیں لینے دیا جائے ۔۔۔۔۔۔۔یہ عدلیہ تین تین وزرائے اعظم کھا گئی ڈکار بھی نہیں ماری۔۔۔۔۔انہوں نے کہا کہ یہاں ایک طبقے کوتو تنخواہ کا 90 فی صد پنشن ملتی ہے۔۔۔۔۔ریٹائر منٹ کے بعد چار چار ملازمین ملتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے کہا کہ عدلیہ۔۔۔۔۔۔۔۔بیوروکریسی اور ایلیٹ نے اس ملک کا معاشی نظام منجمد کر دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ہمارے بجٹ کی کل آمدن سے زیادہ تو ہم پر سود ہے۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے سوال کیا کہ جس ملک میں ہزاروں ارب روپے کی چوری ہو وہاں بجٹ کیسا پیش ہوگا؟۔۔۔۔۔وزیر دفاع نے کہا کہ کون سا ادارہ ہے جس کو زنگ یا دیمک نہیں لگی؟؟؟؟یہاں سفید ہاتھی ادارے خون نچوڑ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ یہاں ادارے نجی کرنے کا سوچیں تو ڈر لگتا ہے کہ نیب نہ پکڑ لے۔۔۔۔۔۔۔وزیر دفاع نے تسلیم کیا کہ یہاں امیر کے لیے کوئی قانون نہیں ۔۔۔۔امیر کےلیے قانون میں ترامیم کردی جاتی ہیں جبکہ عام آدمی 2 ہزار روپے جرمانہ ادا نہ کرنے پر برسوں جیل پڑا رہتا ہے ۔۔۔۔۔۔انہوں نے برملا کہا کہ ٹیکس چوروں کو فائدہ دینے کے لیے یہاں سے ڈیڑھ سال لچک دینے کا قانون بنایا گیا۔۔۔۔۔
"شعلہ بار” وزیر دفاع نے کرپشن کے حیران کن اعدادوشمار تو عوام کے سامنے رکھ دیے لیکن عرض یہ ہے کہ جناب خواجہ آصف کوئی تحقیقاتی رپورٹر نہیں ملک کے وزیر دفاع ہیں۔۔۔۔۔انہوں نے ہوش ربا انکشافات کے بجائے ان خرافات کیخلاف” انسدادی اقدامات” کرنے ہیں۔۔۔۔۔انہوں نے سوالات نہیں اٹھانے جوابات دینے ہیں۔۔۔۔۔انہوں یہ نہیں بتانا کہ ملک کے اسی فیصد لوگ ایک وقت روٹی کھاتے ہیں بلکہ انہوں نے جواب دینا ہے کہ ان لوگوں کو دو وقت روٹی کیوں نہیں مل رہی اور کون کا اس ذمہ دار ہے؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے یہ نہیں بتانا کہ کتنی کرپشن ہو رہی ہے۔۔۔۔انہوں نے جواب دینا ہے کہ کرپشن کیوں ہو رہی ہے اور کون اس کا ذمہ دار ہے؟انہوں نے یہ جواب دینا ہے کہ اربوں ٹیکس کیوں چوری ہو رہا ہے۔۔۔۔دو وزارتیں ایک ہزار ارب خسارہ کیوں کر رہی ہیں۔۔۔یوٹیلیٹی سٹورز کا بڑا سکینڈل کیوں آر ہا ہے۔۔۔۔۔دلہنوں کو دو دو کروڑ کے جوڑے کیوں ملتے ہیں۔۔۔۔۔وائس چانسلرز کیوں ارب پتی بنے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ایک وزیر اعلی اربوں کی کرپشن کرکے لندن کیوں چلے گئے ہیں۔۔اور۔۔۔۔۔۔ملک میں امیر اور غریب کے لیے الگ الگ قانون کیوں ہے؟؟خواجہ صاحب اپوزیشن نہیں حکومت میں ہیں اور بات بات کے جواب دہ ہیں۔۔۔۔۔یہ” گردان”تو ان سے پہلے "تخت نشین” بھی کرتے تھے اور "بڑے اہتمام” سے کرتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”تبدیلی سرکار” کے زمانے میں لکھا تھا کہ بلا شبہ خان صاحب "تھیوری "بہت اچھی پیش کرتے ہیں مگر ہمارے ہاں بنیادی مسئلہ "پریکٹیکل "کا ہے…….ویسے بھی وزیر اعظم کوئی "لیکچرر” یا "موٹیویشنل سپیکر "نہیں ہوتا کہ مسحور کن تقریر کی۔۔۔داد سمیٹی اور چل دیے …وہ ریاست کا سربراہ ہوتا ہے اور اسے مسائل "بیان” نہیں "حل” کرنے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔مکرر عرض ہے کہ لیکچرز” سے نظام حکومت چلتا تو پھر خان صاحب تو پورے "پروفیسر” ہیں اور ہینڈسم بھی…….دشنام طرازی سے کامیابی ملتی تو خان صاحب ملک کی تاریخ کے کامیاب ترین حکمران قرار پاتے…….اسی طرح وزیر مشیر بھی موٹیویشنل سپیکرز نہیں ہوتے کہ اپنی ہی حکومت میں اپنے ہی ماتحت اداروں کیخلاف دھواں تقریریں کریں اور ان کے رفقائے کار ڈیسک بجا کر انہیں داد دیں۔۔۔۔۔وہ "ملا دو پیازے” بھی نہیں ہوتے کہ جگتیں ماریں اور صاحب دربار اور درباریوں کا دل لبھائیں۔۔۔۔۔کیا یہ سچ نہیں اندھے عقیدت مندوں کے”پاکستانی مہاتما "کےساڑھے تین سال کے علاوہ باقی "مبینہ جمہوری "عرصہ خواجہ آصف اور ان کے موجودہ شراکت دار ہی صاحبان اقتدار ٹھہرے۔۔۔۔۔۔سوا سال سے اب بھی وہ اپنی مرضی سے حکومت میں ہیں۔۔۔۔۔جب اقتدار اور اختیار ان کے پاس ہے تو پھر وزیر دفاع” کس” سے مخاطب تھے۔۔۔؟؟؟