
امریکی اخبار دی انٹر سیپٹ میں سائفر کے مبینہ مندرجات سامنے آنے کے بعد پاکستان کی سوشل میڈیا ٹائم لائنز پر ایک بار پھر یہ خفیہ دستاویز زیرِ بحث ہے۔
اس خبر کے شائع ہوتے ہی عمران خان کے حامی اس دستاویز کو ان کے بیانیے کی حقانیت سے جوڑ رہے ہیں جبکہ مخالفین اس کو سرکاری دستاویز کے افشا ہونے پر عمران خان کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
اس حوالے سے سابق وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ نے ایک ٹویٹ میں کہا ’حالانکہ اس خبر میں کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن پھر بھی اس دستاویز کے درست ہونے کی یا اصل سائفر کے مندرجات سے ہم آہنگی دیکھی جائے۔ بظاہر یہ ایک شیطانی اور غدارانہ عمل ہے۔‘
اپنے ٹویٹ کے دوسرے حصے میں انہوں نے لکھا ’یہ کسی صورت نہیں بھولنا چاہیے کہ سائفر کی ایک کاپی عمران خان نیازی کے پاس تھی جو انہوں نے واپس نہیں کی اور آن دی ریکارڈ کہا کہ وہ کہیں گم ہو گئی ہے۔ اگر یہ جرم ثابت ہو جائے تو عمران خان پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔‘
خیال رہے کہ عمران خان کے خلاف جب تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو اسلام آباد میں اپنے پہلے جلسے کے دوران انہوں نے اپنی جیب سے ایک کاغذ نکال کر لہرایا اور اپنے کارکنوں کو بتایا کہ اس خط میں وہ سازش ہے جو ان کی حکومت گرانے کے لیے رچائی گئی۔
حکومت کے ایما پر وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے اس بات کی چھان بین پہلے ہی کر رہا ہے کہ جو سائفر کی کاپی وزیر اعظم ہاؤس بھیجی گئی تھی وہ کہاں ہے۔ اس حوالے سے عمران خان ایک مرتبہ ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم کے روبر و پیش بھی ہو چکے ہیں۔
اس پیشی کے بعد انہوں نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ حکومت ختم ہونے کے بعد والے جلسے میں جو کاغذ انہوں نے لہرایا تھا حقیقت میں وہ سائفر تھا ہی نہیں۔
اب صورت حال یہ ہے کہ امریکی اخبار میں سائفر کے مندرجات نقل ہونے کے بعد صورت حال میں تیزی آ گئی ہے۔ تو ایسے میں قانونی سوال یہ ہے کیا اس مرتبہ عمران خان کی مشکلات میں مزید اضافہ کر سکتی ہے؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے آئینی امور کے ماہر وکیل اور لاہور ہائی کورٹ بار کے سابق سیکریٹری رانا اسداللہ خان کہتے ہیں کہ یہ صرف اس بات پر منحصر ہے کہ موجود خبر کی اشاعت کا تعلق عمران خان سے ثابت ہو تو پھر ان کے لیے مشکلات ہو سکتی ہیں۔
’ابھی تو پہلے بھی سائفر کی گمشدگی کا مقدمہ درج ہے اور تحقیقات بھی جاری ہیں۔ پہلے تو ریاست کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ دستاویز کیسے اور کہاں سے نکلی ہاں اگر یہ تعلق ثابت ہو جاتا ہے تو پھر یقینی طور پر ایک سنجیدہ صورت حال ہو گی۔‘
بیرسٹر احمد پنجوتا کا البتہ کہنا ہے کہ اس سائفر سے متعلق کئی صحافی بھی دعویٰ کر چکے ہیں کہ اس کی ایک کاپی ان کے پاس بھی تھی
’یہ معاملہ اتنا بھی آسان نہیں ہو گا۔ اس لیے اس بات کی تحقیقات کی بہر حال ضرورت ہے اس سے ہی صورت حال واضح ہو گی۔ پہلے بھی ایف آئی اے نے جو سائفر کی گمشدگی کا مقدمہ درج کر رکھا ہے اس میں آفیشیل سیکرٹ ایکٹ ہی لگایا ہے اگر یہ وہی سائفر ہے کی گمشدگی کی تحقیقات ہو رہی ہیں تو پھر نئے مقدمے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ تاہم یہ ثابت کرنا انتہائی مشکل ترین کام ہو گا۔‘