’’ہم لوگ منافق ہیں منافق بھی بلا کے‘‘….حیدر جاوید سید
دونوں پوسٹیں جعلسازی اور جھوٹ کا اعلیٰ شاہکار تھیں مگر سوشل میڈیائی جغادریوں اور ’’جیونیوز‘‘ کے بھونپو اینکر نے رتی برابر شرم محسوس کی نہ جھوٹ ثابت ہونے پر معذرت کی۔
خیال کیا بلکہ ارادہ (ارادہ اس لئے کہ کچھ نوٹس لکھ رکھے تھے) یہی تھا کہ بری فوج کے ترجمان اور آئی ایس پی آر کے سربراہ کی گزشتہ سے پیوستہ سپہر کی گئی پریس کانفرنس پر کچھ عرض کروں۔ چند تلخ حقائق کی نشاندہی کے ساتھ ان کی باتوں میں موجود جھول اور تضادات پر بھی بات ہو۔ پھر یہ ہوا کہ سوشل میڈیا کی سائٹس فیس بک، کی فیس بک میموری نے سال 2019ء کا وہ کالم سامنے لاکھڑا کیا جو اسی طرح کی ایک پریس کانفرنس پر لکھا تھا اور چند سوال اٹھائے تھے۔ اس کالم ’’چند تلخ و شیریں سوالات‘‘ کو اس وقت اخبار نے شائع کرنے سے معذرت کرلی تھی۔
خیر فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ آئی ایس پی آر کے سربراہ کی پریس کانفرنس پر کالم لکھنے کا ارادہ ایک دن کے لئے ملتوی کیا ہے۔ اس کی وجہ ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ قبل کارساز کراچی میں پیش آنے والا ایک المناک حادثہ ، اس پر درج ہوا مقدمہ اور مقدمے کا آج ہوا اختتام ہے۔ یاد آوری کے لئے عرض کردوں کہ ایک دولت مند خاتون نتاشا دانش نے کارساز کے قریب اپنی تیز رفتار گاڑی سے لگ بھگ 9 افراد کو کچل دیا تھا ان میں سے موٹرسائیکل سوار 2 باپ بیٹی (2 افراد) موقع پر جاں بحق ہوگئے تھے۔ 7 افراد میں سے ایک شدید زخمی تھا اور 6 معمولی زخمی ہوئے تھے ۔
اس المناک حادثے کے بعد سوشل میڈیا پر مظلوم پرستوں نے آسمان سر پر اٹھالیا۔ وقوعہ چونکہ کراچی میں ہوا تھا کراچی سندھ کا دارالحکومت ہے اس لئے بھانت بھانت کے جغادری میدان میں کودے اور اچھلنے لگے۔
یہ جغادری اتنے بے شرم تھے اور ہیں کہ ان میں سے سینکڑوں نے وہ جعلی پوسٹ آگے بڑھائی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ حادثے کی ذمہ دار خاتون سندھ حکومت کی ملی بھگت سے راتوں رات دبئی پہنچ گئی ہے۔
ان بے شرم فراڈیوں میں ایک موقع پرست چاپلوس اینکر بھی شامل ہے جس نے وقوعہ کے دو دن بعد مذکورہ خاتون کی ایک جعلی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل کی جس میں وہ وکلاء کے ہجوم کے ہمراہ وکٹری بنائے کھڑی ہے۔ دونوں پوسٹیں جعلسازی اور جھوٹ کا اعلیٰ شاہکار تھیں مگر سوشل میڈیائی جغادریوں اور ’’جیونیوز‘‘ کے بھونپو اینکر نے رتی برابر شرم محسوس کی نہ جھوٹ ثابت ہونے پر معذرت کی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جیو نیوز اور دوسرے چیلنز کے وہ بہادر اینکرز بھی میدان عمل میں نہیں کودے جنہوں نے ماضی میں کراچی میں ہونے والے ایک قابل مذمت قتل پر آسمان صرف اس لئے سر پر اٹھالیا تھا کہ یہ قتل لسانی مسئلہ بنادیا گیا تھا۔
اس بار حادثے کی ذمہ دار خاتون، دو مقتولین اور سات زخمیوں کا تعلق چونکہ ایک ہی لسانی برادری سے تھا اس لئے سب کی بہادری ، آزادی صحافت اور حق پرستی کے ’’سوتے‘‘ خشک ہوگئے۔ کارساز حادثے کی ذمہ دار خاتون حادثے کے وقت نشے میں تھیں۔ بہرحال اب اس خاتون نتاشا دانش، مقتولین اور زخمیوں کے درمیان دیت پر معاملہ طے ہوگیاہے۔ اطلاعات یہی ہیں کہ مرنے والے باپ بیٹی کے ورثا کو ساڑھے پانچ کروڑ روپے دیت ادا کی گئی۔ خاندان کے ایک فرد کو نتاشا دانش کے شوہر کی کمپنی میں ملازمت بھی دی جائے گی۔
زخمیوں سے بھی لین دین ہوگیاہے۔ کارساز پر پیش آنے والے اس المناک حادثے کے مالی لین دین پر (بنام دیت) اختتام نے پنجاب میں گزشتہ برسوں کے دوران رونما ہوئے چند افسوسناک واقعات کی یادیں تازہ کردیں۔
یاد کیجئے لاہور کینٹ میں کانجو خاندان کے بدمست مسلح چشم و چراغ کے ہاتھوں ایک معصوم نوجوان قتل ہوا تھا پھراس نوجوان کی والدہ محترمہ نے سپریم کورٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’بیٹے کے قتل کے بعد بیٹیوں کا ساتھ ہے معاشرہ بہت بے رحم ہے اس بے رحم و سفاک معاشرے میں کیسے اپنے مقدمے کی پیروی کروں‘‘
سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس سمیت کسی جج میں یہ ہمت نہیں ہوئی کہ کہہ پاتا ’’ بہن بیٹی یہ عدالت آپ کے ساتھ کھڑی ہے‘‘۔ اس مظلوم بیوہ خاتون کے لئے سوشل میڈیا پر کوئی مہم نہیں چلی کسی نسلی جمہوری بہادر عوام دوست صحافی و اینکر کی رگ جرات و غیرت نہیں پھڑکی۔ وجہ، میں وجہ عرض کروں تو کہیں گے کہ تعصب کا مظاہرہ کیا ہے۔
اسی طرح کا ایک کیس راولپنڈی میں ہوا۔ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس (جج صاحب اب سپریم کورٹ میں ہیں حادثے کے وقت وہ جج تھے بعد میں لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بنے) کی صاحبزادی کی تیزرفتار گاڑی نے دو نوجوان کچل دیئے جو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوگئے۔ حادثے کے وقت جج کی صاحبزادی گاڑی چلارہی تھی لیکن کیسے یہ خبر رکوائی گئی کچھ چیزیں تبدیل کرائی گئیں اور دو سال تک مرنے والے نوجوانوں کے ورثاء سے فرعونیت بھرا سلوک کیا گیا۔
کیا مجال کوئی اس پر بولا ہو۔ سوشل میڈیا مجاہدین بھی ” دڑ وٹ ” گئے تھے۔
ایک تیسرا واقعہ بھی یاد کراتا چلوں۔ ماضی میں قومی اسمبلی کی رکن رہنے والی خاتون کشمالہ طارق جو بعد میں وفاقی خواتین محتسب بھی رہیں کے نابالغ بیٹے نے تیزرفتار گاڑی سے 4 افراد کوکچل دیا۔ ان میں دو موٹرسائیکل سوارتھے اور دو پیدل چلنے والے۔ یہ چاروں افراد موقع پر ہی خالق حقیقی سے جا ملے ۔
اس مقدمے میں کیا کیا فراڈ ہوئے کسی کویاد ہے؟ کیسے صلح ہوئی اور صلح کے لئے سول و وردی پوش بڑوں نے کیا کردار ادا کیا تھا؟
ان تینوں کیسوں کا تعلق پنجاب سے تھا ایک لاہور دوسرا راولپنڈی اور تیسرا اسلام آباد میں ہوا۔ یہ تینوں واقعات اگر کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں ہوئے ہوتے تھے تو انسانیت پرستوں، آزادی صحافت کے جمہوروں، مجاہد اینکروں اور سوشل میڈیائی مجاہدین کی باسی کڑی میں ابال بلکہ سونامی آجانا تھا اور ایسی ایسی کچی پکی کہانیاں قصے اور ہڈ بیتیاں تلاش کرکے لائی جانی تھیں کہ ہر شخص یہ کہتا پھرتا
’’لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں‘‘ ،
کڑوا سچ یہ ہے کہ ہم سب کے اپنے اپنے مظلوم اور ظالم ، فرد اور طبقات ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کارساز حادثے کی ذمہ دار خاتون کا تعلق اردو بولنے والے خاندان کی بجائے سندھی بولنے والے خاندان سے ہوتا تو میڈیائی شودوں کی چیخیں آسمان پر دستک دے رہی ہوتیں ہر سو ہنگامے ہوتے (زبان دانیوں کے)۔ نتاشا دانش کیس میں عدالت میں جو صلح نامہ جمع کروایا گیا اس پر بحث جاری ہے۔ صلح نامہ بھی جھوٹ کا پلندہ ہے
یہ حادثہ کسی عام شہری مرد یا خاتون کی غفلت سے پیش آیا ہوتا تو تفتیش و مقدمہ بھگتے ہوئے ان کے دانے بک جانے تھے۔ اس ملک میں مالدارہونا فائدہ مند ہے۔
ویسے آپ کو ریمنڈ ڈیوس کیس یاد ہوگا۔ اس میں صلح ریاست نے کرائی تھی دیت کی رقم بھی ریاست پاکستان نے ادا کی تھی۔ یہ رقم مقتولین کے ورثا میں آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ جنرل شجاع پاشا کی موجودگی میں تقسیم ہوئی۔ جناب پاشا ہی عدالتی فیصلے کے بعد ریمنڈ ڈیوس کو اپنی سرکاری گاڑی میں لاہور ایئرپورٹ لے کر گئے بلکہ ان کی گاڑی رن وے پر کھڑے اس نجی جہاز کے پہلو میں جاکر رکی جو ریمنڈ ڈیوس کو لینے کے لئے آیا ہوا تھا۔
جنرل پاشا کو اس خدمت کے عوض بعد میں دبئی کے امریکی ہسپتال میں (یہ بظاہر ہسپتال ہے اصل میں خطے میں ایف بی آئی کا رابطہ مرکز) ملازمت بھی ملی تھی۔ یعنی جنرل پاشا دبئی کے امریکی ہسپتال کی سکیورٹی کے انچارج لگ گئے تھے۔
ہے نا دلچسپ بات؟ میں اپنے دوستوں سے اکثر کہتا ہوں کسی افسوسناک واقعہ کے بعد مجاہد اعظم بننے کی ضرورت نہیں اس ملک میں دیندار یا بے دین ہونے کا فتویٰ پیسوں کے عوض مل جاتا ہے یقین نہ آئے تو پنجاب کے ایک سابق وزیراعلیٰ میاں منظور احمد وٹو سے دریافت کرلیجئے۔
شاعر نے سچ ہی کہا تھا
ہم لوگ منافق ہیں منافق بھی بلا کے