
ایرانی بحریہ کی بڑی کارروائی: فریگیٹس سے اسرائیل پر کروز میزائل داغے گئے
یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب ایران پہلے ہی زمینی اور فضائی محاذ پر اسرائیلی اہداف کو نشانہ بنا رہا ہے
وائس آف جرمنی نیوز ڈیسک
مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی نے نیا رخ اختیار کر لیا ہے، جب ایران نے پہلی بار بحری محاذ پر کارروائی کرتے ہوئے اپنی فریگیٹس (جنگی بحری جہازوں) سے اسرائیل کی جانب کروز میزائل داغنے کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب ایران پہلے ہی زمینی اور فضائی محاذ پر اسرائیلی اہداف کو نشانہ بنا رہا ہے، اور اب بحری جنگ کا آغاز ایک نئے اور خطرناک مرحلے کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔
ایرانی وزارت دفاع کی تصدیق
ایرانی وزارت دفاع کے ترجمان نے سرکاری ٹی وی پر ایک بیان میں کہا کہ "آج علی الصبح ایرانی بحریہ کے فریگیٹس نے مشرقی بحیرۂ روم میں پوزیشن سنبھالنے کے بعد اسرائیلی تنصیبات کی طرف کئی جدید کروز میزائل داغے، جو کامیابی سے اپنے اہداف کی جانب بڑھے۔”
بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ حملے اسرائیلی جارحیت کے خلاف جوابی دفاعی اقدامات کا تسلسل ہیں، اور ایران خطے میں امن و خودمختاری کا خواہاں ہے، تاہم اپنی سرحدوں اور مفادات کا ہر صورت میں دفاع کرے گا۔
نشانہ بننے والے ممکنہ اہداف
ایرانی ذرائع ابلاغ اور غیر رسمی رپورٹوں کے مطابق، کروز میزائلوں کا ہدف اسرائیل کے ساحلی علاقوں میں موجود اہم فوجی اور اقتصادی تنصیبات تھیں، جن میں حیفہ بندرگاہ، اشدود نیول بیس، اور دیگر بحری تنصیبات شامل ہو سکتی ہیں۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق حیفہ اور اس کے مضافات میں کئی زور دار دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں، اور فضا میں دھویں کے بادل دیکھے گئے ہیں۔
اسرائیل کا ردعمل: دفاعی نظام متحرک
اسرائیلی دفاعی فورسز (IDF) نے تصدیق کی ہے کہ بحیرہ روم سے کئی میزائل اسرائیلی حدود کی جانب آئے، جن میں سے زیادہ تر کو آئرن ڈوم اور بحری دفاعی نظام نے راستے میں ہی تباہ کر دیا۔ تاہم، کچھ میزائل زمین پر گرے، جن سے جزوی نقصان کی اطلاعات ہیں۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ صورت حال قابو میں ہے لیکن مزید حملوں کے خدشے کے پیش نظر بحریہ اور فضائیہ کو الرٹ کر دیا گیا ہے۔
بحری کشیدگی: عالمی خطرے کی گھنٹی
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایرانی بحریہ کی اس کارروائی نے اسرائیل-ایران تنازع کو ایک نئے محاذ پر منتقل کر دیا ہے۔ بحری حملے اس لیے بھی خطرناک سمجھے جا رہے ہیں کیونکہ اس سے بین الاقوامی تجارت، تیل کی ترسیل، اور عالمی سمندری راستے بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ خاص طور پر اگر بحری کارروائیاں آبنائے ہرمز یا مشرقی بحیرۂ روم تک پھیلتی ہیں تو اس کے عالمی معیشت پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
بین الاقوامی ردعمل
امریکہ، برطانیہ اور اقوام متحدہ نے ایران کی بحری کارروائی پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے ایک ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے تاکہ اس تنازعے کو پرامن طریقے سے حل کیا جا سکے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ "ایران کی جانب سے بحری میزائل حملے خطرناک اور غیر ذمہ دارانہ اقدام ہیں، اور خطے میں امن کے لیے بڑا خطرہ بن سکتے ہیں۔”
اسرائیلی شہری خوف زدہ، ہنگامی اقدامات جاری
اسرائیلی حکومت نے ساحلی علاقوں میں عوام کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی ہدایت دی ہے۔ حیفہ، اشکیلون اور اشدود میں تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے ہیں، جبکہ شہریوں سے کہا گیا ہے کہ وہ حکومتی ہدایات پر سختی سے عمل کریں۔
جنگ کی وسعت اب سمندری حدود تک
ایران کی جانب سے فریگیٹس کے ذریعے کروز میزائلوں کا استعمال واضح کرتا ہے کہ یہ تنازع اب صرف زمینی یا فضائی نہیں رہا، بلکہ مکمل طور پر ایک "ہمہ جہت جنگ” میں تبدیل ہو چکا ہے۔ بحری حملوں کی یہ پہلی بڑی مثال مستقبل کی مزید کشیدگیوں کا اشارہ دے سکتی ہے۔
عالمی برادری کی نظریں اس وقت تہران اور تل ابیب پر جمی ہوئی ہیں۔ آیا یہ تنازع سفارتکاری کے ذریعے تھمے گا یا پھر مشرق وسطیٰ ایک بڑی جنگ کی طرف بڑھ رہا ہے — یہ فیصلہ آنے والے چند گھنٹے یا دن کریں گے۔