پاکستاناہم خبریںتازہ ترین

ایران-اسرائیل کشیدگی اور پاکستان کی سٹریٹجک پوزیشن: قومی خودمختاری اولین ترجیح، مسلح افواج آئینی دائرے میں پابند

پاکستان خطے میں کسی بھی عسکری تصادم سے اجتناب کو ترجیح دیتا ہے اور ایران و اسرائیل تنازعے کو سفارتی ذرائع سے حل کرنے کا حامی ہے

سید عاطف ندیم-پاکستان، وائس آف جرمنی کے ساتھ
مشرق وسطیٰ میں ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی کے پس منظر میں جہاں عالمی قوتیں مختلف بلاکس میں منقسم دکھائی دیتی ہیں، وہیں پاکستان کی سٹریٹجک اور آئینی پوزیشن واضح، متوازن اور قومی مفادات پر مبنی ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج، جو آئینی طور پر ملک کی سرحدوں اور قومی خودمختاری کے تحفظ کی ضامن ہیں، کسی بھی بیرونی تنازعے میں ریاست کی اجازت کے بغیر مداخلت نہیں کر سکتیں۔
اس وقت جب خطے میں بعض قوتیں اس تنازعے کو وسعت دینے کی کوشش کر رہی ہیں، پاکستان نے اپنی پالیسی میں احتیاط، دانشمندی اور غیر جانبداری کو ترجیح دی ہے۔ دفتر خارجہ اور اعلیٰ عسکری قیادت نے بارہا اس امر کو واضح کیا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج کا ہر اقدام آئینِ پاکستان اور پارلیمانی منظوری کے تابع ہوتا ہے۔
آئینی دائرہ کار: افواج کا کردار دفاعِ وطن تک محدود
پاکستان کے آئین کے تحت مسلح افواج کا بنیادی فریضہ ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کا دفاع ہے۔ افواج پاکستان کسی غیر ملکی جنگ یا تنازعے میں ریاست کی واضح پالیسی اور آئینی اجازت کے بغیر شریک نہیں ہو سکتیں۔
آئینی ماہرین کے مطابق آرٹیکل 243 کے تحت صدرِ مملکت، جو کہ مسلح افواج کے سپریم کمانڈر ہیں، صرف وزیراعظم کی ایڈوائس پر فوجی تعیناتی یا کارروائی کی منظوری دے سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی افواج کا کوئی بھی بیرونی اقدام مکمل ریاستی منظوری اور پالیسی کے تابع ہوتا ہے۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی: امن، غیر جانبداری اور مسلم امہ سے یکجہتی
پاکستان نے ہمیشہ خارجہ پالیسی میں "تمام کے ساتھ امن، کسی کے خلاف نہیں” کے اصول پر عمل کیا ہے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کے دوران بھی پاکستان نے متوازن مؤقف اپنایا، جس میں خطے میں امن کی بحالی، مسلم امہ کے اتحاد اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق تنازعات کے حل پر زور دیا گیا۔
دفتر خارجہ نے حالیہ بیانات میں واضح کیا ہے کہ پاکستان خطے میں کسی بھی عسکری تصادم سے اجتناب کو ترجیح دیتا ہے اور ایران و اسرائیل تنازعے کو سفارتی ذرائع سے حل کرنے کا حامی ہے۔
عسکری ماہرین: پاکستان کو خطے میں غیر ضروری الجھاؤ سے بچنا چاہیے
دفاعی و عسکری تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اپنے سٹریٹجک چیلنجز پہلے ہی خاصے پیچیدہ ہیں جن میں مشرقی سرحد پر بھارت کے ساتھ کشیدگی، افغان سرحدی سیکیورٹی اور اندرونی دہشت گردی کے خطرات شامل ہیں۔ ایسے میں کسی تیسرے ملک کے تنازعے میں براہِ راست مداخلت پاکستان کے لیے ایک غیر ضروری خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔
عسکری ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کو اپنی جغرافیائی اہمیت، نیوکلیئر حیثیت اور مسلم دنیا میں قائدانہ کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف وہی اقدامات کرنے چاہئیں جو قومی مفاد، آئینی حدود اور بین الاقوامی اصولوں سے ہم آہنگ ہوں۔
عوامی ردعمل: "ہماری جنگ نہیں” کا پیغام واضح
سوشل میڈیا اور عوامی حلقوں میں بھی اس حوالے سے بحث جاری ہے۔ اکثریتی رائے یہی ہے کہ پاکستان کو اس تنازعے سے دور رہنا چاہیے اور صرف سفارتی اور انسانی بنیادوں پر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
عوامی سطح پر یہ احساس پایا جاتا ہے کہ پاکستان کو اپنی معیشت، داخلی استحکام اور معاشرتی بہتری پر توجہ دینی چاہیے نہ کہ کسی ایسے تنازعے کا حصہ بننا چاہیے جس کے محرکات اور نتائج پاکستان کے دائرہ اثر سے باہر ہیں۔
نتیجہ: قومی مفاد اولین، آئینی تقاضے واضح
موجودہ عالمی و علاقائی منظرنامے میں پاکستان کا سٹریٹجک مؤقف حقیقت پسندی اور ذمہ داری پر مبنی ہے۔ ایران-اسرائیل کشیدگی میں پاکستان کی مسلح افواج کی شرکت صرف اسی وقت ممکن ہے جب ریاست، پارلیمان اور آئین اجازت دیں۔ بصورتِ دیگر افواج پاکستان کا کام صرف اور صرف قومی خودمختاری کا تحفظ ہے، نہ کہ بیرونی تنازعات میں غیر مشروط شرکت۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button