کالمزسید عاطف ندیم

جنوبی ایشیا جرمنی سے کیا سیکھے؟…….سید عاطف ندیم

یہاں مذہبی، لسانی اور نسلی بنیادوں پر کئی بار خونریزی ہوئی، سیاسی بدامنی کا دور رہا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں معمول بن گئی ہیں

دنیا کے ہر معاشرے کا مستقبل اس کے ماضی کی گہرائیوں سے جڑا ہوتا ہے۔ ماضی کے تلخ تجربات، غلطیوں اور کامیابیوں کا جائزہ لے کر ہی کوئی قوم اپنے آپ کو بہتر اور مستحکم بنا سکتی ہے۔ انسانی تاریخ میں بہت سی مثالیں ملتی ہیں جہاں قومیں اپنے ماضی کی تلخیوں سے سبق سیکھ کر ترقی کی راہ پر گامزن ہوئی ہیں۔ تاہم، کچھ معاشرے ایسے بھی ہیں جو ماضی کی تلخیوں کو نظرانداز کرتے یا چھپاتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ مسائل سے دوچار رہتے ہیں اور ترقی کے پیچیدہ راستے پر کمزور پڑ جاتے ہیں۔
جنوبی ایشیا، جس میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان، سری لنکا اور افغانستان شامل ہیں، طویل عرصے سے سیاسی، سماجی اور مذہبی کشمکشوں کا شکار رہا ہے۔ اس خطے کی تاریخ متنازعہ، پیچیدہ اور بعض اوقات دردناک رہی ہے۔ سیاسی انتشار، نسلی اور مذہبی تعصبات، نظریاتی اختلافات اور اندرونی خلفشار نے جنوبی ایشیا کو ہمیشہ امن اور استحکام کی راہ سے دور رکھا ہے۔ اس خطے کا ایک بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اپنے ماضی کا سچائی سے سامنا کیا ہے؟ اگر نہیں تو ہمیں کن مثالوں سے سبق حاصل کرنا چاہیے؟
یہاں جرمنی کی مثال خاص اہمیت رکھتی ہے۔ جرمنی وہ ملک ہے جس نے دنیا کی تاریخ کے سب سے تاریک اور بھیانک دور یعنی دوسری عالمی جنگ اور ہولوکاسٹ کا نہایت صادقانہ، شفاف اور گہرائی سے سامنا کیا۔ جرمنی نے اپنے ماضی کی تلخ حقیقتوں کو چھپانے یا نظر انداز کرنے کی بجائے قبول کیا، ان پر کھل کر بحث کی، تعلیمی نظام میں شامل کیا اور اپنی نئی نسل کو اس کے بارے میں آگاہ کیا۔ اس طرز عمل نے نہ صرف جرمنی کو اپنی تاریخ کے سیاہ ابواب سے نکلنے میں مدد دی بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک مثال قائم کی کہ ماضی کا حقیقی سامنا ایک قوم کو کس طرح مضبوط اور ترقی یافتہ بنا سکتا ہے۔
جرمنی کی مثال ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ماضی کے تلخ واقعات کو چھپانے یا انکار کرنے کے بجائے، ان کو قبول کرنا اور ان پر کھل کر بات کرنا قوم کی ذمہ داری ہے۔ جنگ کے بعد جرمنی نے ہولوکاسٹ کے بارے میں عوامی مکالمے کو فروغ دیا، تاریخی حقائق کو تسلیم کیا اور نوجوان نسل میں اس بارے میں شعور اجاگر کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جرمن قوم نے اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے ایک ایسے ملک کی تعمیر کی جو آج دنیا میں جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے ایک مثال ہے۔
یہی طریقہ جنوبی ایشیا کے لیے بھی انتہائی ضروری ہے۔ اس خطے کو اپنی تاریخ کے متنازع اور دردناک واقعات کو شفافیت اور دیانتداری کے ساتھ قبول کرنا ہوگا۔ کشمیر، بلوچستان، لسانی اور مذہبی تنازعات، اور سیاسی تقسیم جیسے مسائل کا حل اسی صورت ممکن ہے جب ہم ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کریں اور ان سے سبق حاصل کریں۔
جنوبی ایشیا کی تاریخ تنازعوں، جدوجہد اور انتشار سے بھری ہوئی ہے۔ یہاں مذہبی، لسانی اور نسلی بنیادوں پر کئی بار خونریزی ہوئی، سیاسی بدامنی کا دور رہا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں معمول بن گئی ہیں۔ اس خطے میں کئی بار طاقت کے نشے میں سیاسی اور عسکری قیادت نے ماضی کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے ان میں نمک چھڑکنے کا کام کیا۔
تاہم، اگر جنوبی ایشیا کے ممالک ماضی کی تلخیوں کو سامنے لا کر ان پر کھل کر بات کریں، تو یہ ایک نئی امن اور استحکام کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ ایسا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی رہنما، تعلیمی ادارے، سول سوسائٹی اور میڈیا مل کر کام کریں اور تاریخ کے درست اور متوازن ریکارڈ کو عوام تک پہنچائیں۔ نوجوان نسل کو ماضی کے متعلق آگاہی دی جائے تاکہ وہ تاریخی تلخیوں کو سمجھ سکیں اور انہیں دوہرانے سے بچ سکیں۔
ماضی کا سامنا صرف تاریخ کو یاد کرنا نہیں بلکہ اس کے تلخ حقائق کو قبول کرنا، ان پر غور و فکر کرنا اور ان کا اعتراف کرنا ہے۔ یہ عمل معاشرتی مصالحت، قانون کی حکمرانی، اور انسانی حقوق کی پاسداری کو فروغ دیتا ہے۔ جرمنی کی طرح جنوبی ایشیا کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے ماضی کے سائے میں چھپنے کی بجائے انہیں روشن کرے تاکہ اندھیروں سے نکل کر امن اور استحکام کی روشنی میں قدم بڑھایا جا سکے۔
یہ ایک ایسا عمل ہے جو نہ صرف سیاسی سطح پر بلکہ معاشرتی سطح پر بھی ضروری ہے۔ مختلف قوموں، فرقوں اور مذہبی گروہوں کے درمیان مکالمہ شروع کرنا، زخموں کو بھرنے کی کوشش کرنا اور مشترکہ تاریخ کو سمجھنا ایک خوشحال اور پرامن معاشرے کی بنیاد ہے۔
تعلیمی اداروں اور میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ ماضی کے تلخ حقائق کو سنجیدگی اور ایمانداری سے سامنے لائیں۔ تعلیمی نصاب میں ایسے مضامین شامل کیے جائیں جو تاریخ کی حقیقتوں کو متوازن انداز میں بیان کریں، تاکہ طلبہ کو پوری تصویر سمجھنے کا موقع ملے۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ سنجیدہ اور حقائق پر مبنی رپورٹنگ کرے اور مختلف قوموں کے مابین پل کا کردار ادا کرے۔
یہ تمام عوامل مل کر جنوبی ایشیا میں امن، اتفاق اور استحکام کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔
آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ ماضی کا سامنا کرنا آسان نہیں، مگر یہ واحد راستہ ہے جس پر چل کر کوئی قوم اپنی تقدیر بدل سکتی ہے۔ جرمنی کی طرح جنوبی ایشیا بھی اپنے ماضی کو قبول کر کے، اس سے سبق سیکھ کر، اور آئندہ نسلوں کے لیے امن اور ترقی کا راستہ ہموار کر سکتا ہے۔ یہی ایک قوم کی اصل حکمت اور دانشمندی ہے۔
جنوبی ایشیا کے ممالک کو چاہیے کہ وہ سیاسی اور سماجی اختلافات کو پس پشت ڈال کر اپنے ماضی کے زخموں کو بھرنے کی کوشش کریں۔ یہی واحد طریقہ ہے کہ ہم ایک مستحکم، خوشحال اور پرامن خطہ بن سکیں گے جہاں ہر قوم، ہر فرقہ اور ہر فرد امن و آشتی کے ساتھ زندگی گزار سکے گا۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button