اسلام آباد ہائی کورٹ کا اہم فیصلہ: کم عمری کی شادی شریعت میں باطل نہیں، مگر قانوناً جرم ہے
عدالت کے مشاہدے کے مطابق، مدیحہ بی بی نے کرائسز سینٹر میں قیام کے دوران بھی اپنے مؤقف پر قائم رہتے ہوئے یہی مؤقف اختیار کیا کہ وہ شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی): اسلام آباد ہائی کورٹ نے کم عمری کی شادی سے متعلق ایک اہم مقدمے میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ شریعت کے مطابق بلوغت اور رضامندی کے بعد نکاح جائز اور درست ہے، تاہم اسلام آباد چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2025 کے تحت 18 سال سے کم عمر میں شادی ایک قابلِ سزا جرم ہے۔
یہ فیصلہ 15 سالہ مدیحہ بی بی کی درخواست پر سنایا گیا، جس نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ اسے والدین کے حوالے نہ کیا جائے، بلکہ اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کی اجازت دی جائے۔
مدیحہ بی بی کا مؤقف: شوہر کے ساتھ رہنے کی خواہش
عدالت کے روبرو مدیحہ بی بی نے بیان دیا کہ وہ اپنی مرضی سے نکاح کر چکی ہے اور کسی بھی صورت اپنے والدین کے گھر واپس نہیں جانا چاہتی۔
عدالت کے مشاہدے کے مطابق، مدیحہ بی بی نے کرائسز سینٹر میں قیام کے دوران بھی اپنے مؤقف پر قائم رہتے ہوئے یہی مؤقف اختیار کیا کہ وہ شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔
عدالت کا فیصلہ: شریعت اور قانون کا تقابلی جائزہ
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کئی اہم نکات کا احاطہ کیا:
-
نکاح نامے میں دلہن کی عمر تقریباً 18 سال درج ہے۔
-
تاہم نادرا کے ریکارڈ کے مطابق مدیحہ بی بی کی عمر صرف 15 سال ہے۔
-
عدالت نے کہا کہ اگرچہ شریعت کے مطابق نکاح بلوغت اور رضامندی سے درست قرار دیا جاتا ہے، مگر پاکستانی قانون کے مطابق 18 سال سے کم عمر کی شادی قانونی جرم ہے۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ ایسے معاملات میں عدالت کو شریعت، قانون، انسانی حقوق اور لڑکی کی رضامندی سمیت تمام عوامل کو متوازن انداز میں پرکھنا ہوتا ہے۔
قانونی حوالہ جات اور ہدایات
فیصلے میں کئی اہم قوانین اور آرڈیننسز کا حوالہ بھی شامل کیا گیا جن میں شامل ہیں:
-
چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929
-
مسلم فیملی لاز آرڈیننس 1961
-
اسلام آباد چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2025
عدالت نے اس کیس کے فیصلے کو ایک نظیری مقدمے (precedent case) کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے، اس کی کاپی:
-
متعلقہ وزارتوں
-
فیملی کورٹس کے ججز
کو بھجوانے کی ہدایت کی، تاکہ آئندہ ایسے مقدمات میں قانونی رہنمائی حاصل کی جا سکے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کا مؤقف: بل غیر اسلامی قرار
اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی کم عمری کی شادی کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ مئی 2025 میں خیبرپختونخوا حکومت اور قومی اسمبلی کی طرف سے بھیجے گئے "امتناع ازدواجِ اطفال بل 2025” اور "کمسنی کی شادی کے امتناع کا بل” پر غور کے بعد کونسل نے ان قوانین کو غیر اسلامی قرار دیا تھا۔
کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر علامہ محمد راغب حسین نعیمی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس کے اعلامیے میں درج ذیل نکات شامل تھے:
-
عمر کی حد مقرر کرنا شریعت کے مطابق نہیں، کیونکہ شریعت میں نکاح کی بنیاد بلوغت اور رضامندی پر ہے۔
-
18 سال سے کم عمر کی شادی کو زیادتی (ریپ) قرار دینا اور اس پر سزائیں تجویز کرنا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔
-
کونسل نے واضح کیا کہ نکاح کو غیر ضروری قانونی پیچیدگیوں سے بچانے کی ضرورت ہے۔
-
البتہ کونسل نے اس بات پر زور دیا کہ کمسنی کی شادیوں کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے تاکہ معاشرتی نقصان سے بچا جا سکے۔
کونسل کا کہنا تھا کہ یہ بل باقاعدہ طور پر قومی اسمبلی یا سینیٹ کی طرف سے غور کے لیے کونسل کو سرکاری طور پر ارسال نہیں کیا گیا۔
جہیز سے متعلق وضاحت
اسی اجلاس میں جہیز کے حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی رائے میں واضح کیا کہ:
"لڑکی والوں پر جہیز دینے کے لیے زور دینا یا لڑکے والوں کی طرف سے مطالبہ کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔”
قانون، شریعت اور معاشرتی حقیقت کے درمیان توازن کی ضرورت
یہ فیصلہ پاکستان میں جاری ایک اہم قانونی و معاشرتی بحث کو اجاگر کرتا ہے، جہاں:
-
ایک طرف شریعت کی روشنی میں نکاح کی شرائط ہیں۔
-
دوسری طرف قانونی اصلاحات اور بچوں کے تحفظ کے لیے بنائے گئے قوانین موجود ہیں۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے حساس مقدمات میں عدالتوں کو انسانی حقوق، شریعت، قانون، اور سماجی اقدار کے درمیان توازن پیدا کرنا ہوتا ہے۔
یہ فیصلہ اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان میں عدالتی نظام اس توازن کو قائم رکھنے کی سنجیدہ کوشش کر رہا ہے۔
نتیجہ: آگے کا راستہ
اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ:
-
عدالتیں صرف قانون کے تحت نہیں بلکہ افراد کی آزادی، مذہبی احکام، اور ریاستی قوانین کے مابین مطابقت پیدا کرتے ہوئے فیصلے سنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
-
اس فیصلے کی روشنی میں قانون ساز اداروں، اسلامی نظریاتی کونسل، اور عدالتوں کو باہمی مشاورت سے ایک ایسی پالیسی تشکیل دینی چاہیے جو نہ صرف شریعت سے مطابقت رکھتی ہو بلکہ بچوں کے تحفظ کو بھی یقینی بنائے۔



