سپریم کورٹ نے احتساب عدالتوں کو نیب کیسز میں حتمی فیصلہ جاری کرنے سے روک دیا
سپریم کورٹ نے کہا کہ ’یہ مناسب ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تفصیلی فیصلے کے بعد نیب انٹرا کورٹ اپیل سماعت کے لیے مقرر کی جائے۔ یہ عدالت فیصلہ کر چکی ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا ابھی تفصیلی فیصلہ لکھا نہیں گیا۔‘
سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کا فیصلہ معطل کرنے کی درخواست مسترد کر دی ہے جبکہ اپیل کا فیصلہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کے تفصیلی فیصلے سے مشروط کر دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے احتساب عدالتوں کو آئندہ سماعت تک نیب مقدمات کے حتمی فیصلوں سے بھی روک دیا۔
منگل کو نیب ترامیم فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے کی۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ ’یہ مناسب ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تفصیلی فیصلے کے بعد نیب انٹرا کورٹ اپیل سماعت کے لیے مقرر کی جائے۔ یہ عدالت فیصلہ کر چکی ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا ابھی تفصیلی فیصلہ لکھا نہیں گیا۔‘
منگل کی سماعت کے حکم نامے کے مطابق عدالت کو بتایا گیا کہ 21 اپریل سے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کا اطلاق کیا گیا، نیب ترمیم کے تین رکنی بینچ نے 15 ستمبر کو فیصلہ دیا۔
مخدوم علی خان کے معاون وکیل نے کہا کہ نیب ترامیم کیس کو پانچ رکنی لارجر بینچ کو سُننا چاہیے تھا۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا انہیں سُنے بغیر فیصلہ دیا گیا۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے اور کہا کہ ’وکیل مخدوم علی خان بیرون ملک ہیں۔ انہوں نے التوا کی درخواست دی ہے، کچھ گزارشات پیش کر سکتا ہوں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے کچھ اور درخواستیں بھی آئی ہیں، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں عدالت کی معاونت کرنے کے لیے تیار ہوں۔
اسی دوران وکیل درخواست گزار فاروق نائیک بھی روسٹرم پر آ گئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’فاروق نائیک صاحب! آپ عدالتی فیصلے کی حمایت میں ہیں یا مخالفت کر رہے ہیں؟‘
جس پر وکیل فاورق نائیک نے کہا کہ ’نیب ترامیم کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کی مخالفت کر رہا ہوں۔‘
وکیل فاروق نائیک نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے درخواستیں کچھ فریقین کی جانب سے دائر کی ہیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ’کیا پہلے اس کیس میں آپ فریق نہیں تھے؟ جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ’میرے مؤکل نیب ملزم ہیں، انہیں فریق بنائے بغیر یہ فیصلہ دیا گیا۔‘
فاروق ایچ نائیک نے موقف اپنایا کہ ’میں نے دو نظرثانی کی درخواستیں دی تھیں اور ایک اپیل دائر کی تھی۔‘ چیف جسٹس نے کہا کہ ’اپیل اور نظرثانی کا سکوپ الگ الگ ہے۔‘
جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ’میں نظر ثانی کی درخواستیں واپس لے کر اپیل کی پیروی کرنا چاہتا ہوں، میری گزارش ہو گی کہ اپیل میں مجھے سُنا ضرور جائے۔‘
چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ نے لکھا نیب ترمیم کیس پریکٹس اینڈ پروسیجر کے تحت پانچ رکنی بینچ نے سُننا تھا، آپ اس نکتے پر قائم ہیں تو پھر اس نکتے پر مطمئن کریں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر اس نکتے پر مطمئن کر لیا تو اپیل کے میرٹس پر نہیں جائیں گے۔ ایسی صورت میں ہم ترامیم کے خلاف درخواستیں بحال کر کے نیا بینچ بنا دیں گے یا پھر اس نکتے کو واپس لے لیں گے۔‘
وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ’ایسا نہ کریں، موجودہ اپیلیں ہی چلائیں۔ ایسا کیا تو نیب کورٹس میں مقدمات چلنا شروع ہو جائیں گے۔ ‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’دیکھیں مخدوم علی خان نے اپنی درخواست میں یہ گراؤنڈ لے رکھی ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ ’کیا ساری نیب ترامیم فیصلے سے اُڑ گئیں یا کچھ بچی ہیں؟‘
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ جو تیسری ترامیم آئیں انہیں چھیڑا ہی نہیں گیا، پہلی اور دوسری ترامیم میں سے کچھ ختم کر دی گئیں کچھ باقی ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’اکثریتی فیصلے میں جس گراؤنڈ پر انحصار کیا گیا ہے اس کا تیسری ترامیم سے تعلق ہے، تیسری ترامیم کو چھیڑے بغیر وہ فیصلہ کیسے کر سکتے تھے؟‘
مخدوم علی خان کے معاون وکیل نے کہا کہ پہلی ترامیم کو چیلنج کیا گیا تو دوسری ترامیم آئیں۔ پھر درخواست گزار نے درخواستوں میں ترامیم کیں۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ تیسری ترامیم کب آئیں؟ جس پر مخدوم علی خان کے معاون وکیل نے کہا کہ تیسری ترامیم مئی 2023ء میں آئی ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’پھر تو کافی وقت تھا تیسری ترامیم پر بھی، درخواست گزار اپنی درخواست بدل سکتا تھا۔ پھر تو یہ بات درست ہے کہ اگر ترامیم کالعدم ہونا تھیں تو تیسری ترامیم بھی کالعدم ہونا تھیں۔ فیصلے میں اگر تیسری ترامیم کا ذکر ہے تو پھر ان پر فیصلہ بھی ہونا تھا۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کے تحت نیب ترامیم کیس پانچ رکنی بینچ کو ہی سُننا چاہیے تھا۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل معطل ہوا تھا، ایکٹ کبھی معطل نہیں ہوا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ’ابھی پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا تفصیلی فیصلہ نہیں آیا۔ ہو سکتا ہے اس فیصلے میں اس نکتے پر بھی فیصلہ موجود ہو۔ ایسی صورت میں ہم اس کیس کو آج نہیں چلا سکتے۔ ٹرائل کورٹ کے جج پر تشریحات کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے۔ ٹرائل کورٹ کے جج کو صرف ٹرائل تک رکھنا چاہیے۔‘
بعدازاں عدالت نے حکم نامہ جاری کرتے ہوئے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا تفصیلی فیصلہ آنے تک کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔
نیب ترامیم کے خلاف اپیل کا پس منظر
15 ستمبر کو سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پارلیمان کی جانب سے قومی احتساب بیورو (نیب) کے قانون میں کئی گئی پی ڈی ایم حکومت کی متعدد ترامیم کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے دو ایک کی اکثریت سے فیصلہ سنایا تھا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔
فیصلے میں عدالت نے عوامی عہدوں پر بیٹھے افراد کے خلاف ختم کیے گئے نیب ریفرنس بحال کر دیے تھے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں 50 کروڑ سے کم رقم کے مقدمات نیب سے واپس لینے کی شق کو کالعدم قرار دیا تھا۔
پاکستان کے سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے گزشتہ سال جون میں نیب قوانین میں ترامیم کو سپریم کورٹ میں چینلج کر دیا تھا۔