
ایک انوکھا شہر!اسلام آباد…….سید عاطف ندیم
یہ شہر روز ایک نئی کہانی سناتا ہے، مگر ایسی آواز میں جو صرف وہی سن سکتا ہے جو سننے کا ہنر جانتا ہو
عجب شہر ہے یہ اسلام آباد! پہاڑوں کے دامن میں بسا یہ شہر بظاہر پُرسکون، صاف ستھرا اور منظم دکھائی دیتا ہے، لیکن اس کے اندر ایک ایسا سیاسی دریا بہتا ہے جس کی سطح ہمیشہ پرسکون رہتی ہے، مگر تہہ میں طوفان برپا ہوتا ہے۔ خاموشی اس شہر کی شناخت بھی ہے اور سب سے بڑی حکمت بھی۔ تلاطم بھی یہاں ہے، اور وہ بھی ایسا جسے محسوس کرنے کے لیے آنکھیں نہیں، دل اور ذہن چاہیے۔
بظاہر ایک پُرسکون، باوقار اور خاموش شہر۔ درختوں سے ڈھکی صاف ستھری شاہراہیں، پہاڑوں سے لپٹا ہوا نیلا آسمان، اور سرکاری عمارتوں کے درمیان چھپی ہوئی سیاسی نبض جو پورے ملک کے فیصلے دھڑکنوں میں سمیٹے ہوتی ہے۔ مگر یہ خامشی دھوکہ بھی ہے اور پیغام بھی۔ کیونکہ اس خامشی میں ایک عجیب سا اعتماد پوشیدہ ہےایسا اعتماد، جو اکثر تلاطم سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔
یہ شہر روز ایک نئی کہانی سناتا ہے، مگر ایسی آواز میں جو صرف وہی سن سکتا ہے جو سننے کا ہنر جانتا ہو۔ یہاں کی سیاسی فضا میں گفتگو سے زیادہ خاموشی بولتی ہے، اور فیصلے پریس کانفرنس میں نہیں بلکہ بند کمروں میں ہوتے ہیں۔
اس شہر کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں ہر دن ایک نیا ڈرامہ ہوتا ہے۔ آج ایک بیان بازی کسی سیاسی لیڈر کو میڈیا کی شہ سرخیوں میں لے آتی ہے، کل وہی لیڈر نیب کے دفتر میں حاضری دے رہا ہوتا ہے۔ آج ایک پریس کانفرنس حکومت کے لیے خطرہ بن جاتی ہے، کل ایک خاموش ملاقات تمام بحران ختم کر دیتی ہے۔
کبھی عدالتوں کی راہداریوں میں انقلاب کی سرگوشیاں ہوتی ہیں، کبھی پارلیمنٹ کے ایوانوں میں مفاہمت کے پردے تنے ہوتے ہیں۔ کبھی ایوانِ صدر کے دروازے بند ہوتے ہیں، تو کبھی وزیراعظم ہاؤس کی کھڑکیاں کھلی رہتی ہیں۔ لیکن اس سب کے بیچ جو چیز ہمیشہ برقرار رہتی ہے، وہ ہے خامشی—وہ خامشی جو بہت کچھ سناتی ہے۔
یہی اسلام آباد ہےجہاں ہر روز اقتدار کے سنگ مرمر پر نئی داستانیں رقم ہوتی ہیں۔ یہاں صبح سیاست سے ہوتی ہے، دوپہر بیانات سے، شام پریس کانفرنسوں سے اور رات تجزیوں سے۔ اس شہر میں خبریں بنتی نہیں، پیدا ہوتی ہیں؛ اور ان کی پیدائش میں اکثر اوقات نہ کوئی شور ہوتا ہے، نہ واویلا۔ بس ایک خامشی ہوتی ہے، جو سب کچھ کہہ جاتی ہے۔
اسلام آباد کی ہر صبح ایک نئی کہانی لے کر آتی ہے۔ کبھی کسی کی نااہلی، کبھی کسی کی گرفتاری، کبھی "ووٹ کو عزت” کا نعرہ، تو کبھی "ریاست بچاؤ” کی تحریک۔ مگر ان سب کہانیوں میں نیت وہی پرانی ہوتی ہے: طاقت کا حصول۔ یہاں مقصد عوام نہیں، ایوان ہوتے ہیں؛ نظریہ نہیں، نمبر گیم ہوتا ہے۔
یہ شہر جانتا ہے کہ کون کب بولے گا، کب چپ رہے گا، اور کب منظر سے غائب کر دیا جائے گا۔ یہاں کسی کے بیانات اچانک قومی مفاد بن جاتے ہیں، اور کسی کی حب الوطنی مشکوک۔ مگر شہر کی خامشی سب کچھ برداشت کرتی ہے۔ نہ وہ کسی کے حق میں بولتا ہے، نہ مخالفت میں۔
اسلام آباد کی سڑکوں پر گھومتے ہوئے اگر آپ کو لگا کہ سب کچھ ٹھیک ہے، تو آپ سیاست کے نئے طالب علم ہیں۔ کیونکہ اس شہر کی فطرت ہی کچھ ایسی ہے کہ یہاں سکوت میں صدائیں گونجتی ہیں، اور صداؤں میں ایسی خاموشی ہوتی ہے جس میں معنی پوشیدہ ہوتے ہیں۔ یہاں وزرائے اعظم کی کرسیوں پر فیصلے ہوتے ہیں، مگر لب نہیں ہلتے۔ یہاں اسٹیبلشمنٹ کی سوچ، پارلیمان کی سانس، اور عدلیہ کے اشارے سب کچھ کہے بغیر کہہ جاتے ہیں۔
اسلام آباد کا مزاج عجیب ہےنہ کسی کے آنے پر شور، نہ کسی کے جانے پر ماتم۔ یہاں حکومتیں بنتی ہیں، ٹوٹتی ہیں، نظام بدلتے ہیں، نظریے بدلتے ہیں، مگر شہر کا لہجہ نہیں بدلتا۔ وہی پراسرار سی خامشی، وہی اندرونی اطمینان، جیسے سب کچھ پہلے سے طے شدہ ہو۔
یہ شہر سیاستدانوں کو بے نقاب کرتا ہے، بیوروکریٹس کو تحفظ دیتا ہے، اور اداروں کو دھیرے دھیرے طاقت کے نئے راستے سونپتا ہے۔ عوام کے لیے یہاں کچھ نہیں بدلا، لیکن یہاں کے راہداریوں میں روز ایک نئی اسکرپٹ لکھی جاتی ہے۔ کبھی عدالتوں کے ذریعے، کبھی اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے، اور کبھی میڈیا کے چند مخصوص کیمروں کے ذریعے۔
اسلام آباد کی خامشی کا سب سے بڑا کمال یہی ہے کہ وہ کسی کی بھی کامیابی کو وقتی، اور کسی کی بھی ناکامی کو مستقل نہیں مانتی۔ یہاں اقتدار کا کھیل ایک دائرے میں گھومتا ہے۔ کبھی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے گلے لگاتی ہیں، کبھی ایک دوسرے کی جڑیں کاٹتی ہیں، مگر اقتدار وہیں رہتا ہے—شہر کی مخصوص دیواروں کے اندر۔
یہ خامشی ہی دراصل سسٹم کا اعتماد ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ہنگامے آئیں گے، مارچ ہوں گے، نعرے لگیں گے، مگر آخرکار سب کو واپس اسی دروازے پر آنا ہے جہاں فیصلے خاموشی سے ہوتے ہیں۔
اسلام آباد کی خامشی میں ایک پُراسرار اعتماد جھلکتا ہے۔ یہ اعتماد نہ صرف حکمرانوں کا ہے، بلکہ سسٹم کا بھی ہے۔ جیسے کہ سب کچھ طے شدہ ہو، بس اسے مناسب وقت پر ظاہر کرنا ہے۔ جب کوئی بحران پیدا ہوتا ہے، تو اسلام آباد میں کہیں نہ کہیں دروازے بند ہو جاتے ہیں، فون بند ہو جاتے ہیں، بیانات آنا رک جاتے ہیں۔ لیکن پھر اچانک ایک نیا بیانیہ، ایک نیا کردار، اور ایک نیا موڑ سامنے آتا ہے۔
یہی اعتماد اس شہر کی شناخت ہے۔ چاہے حکومتیں بدل جائیں، چہرے نئے آئیں، مگر شہر کی روش نہیں بدلتی۔ خاموشی، منصوبہ بندی، اور پس پردہ فیصلے—یہی اسلام آباد کی اصل روح ہے۔
اسلام آباد کسی کا نہیں، یہ صرف اپنے اصولوں کا شہر ہے۔ یہاں صرف وہی کامیاب ہوتا ہے جو خامشی کا مفہوم سمجھ لے۔ یہاں سیاستدان آتے ہیں، جاتے ہیں، مگر شہر کی دیواروں پر لکھی کہانیوں کا رنگ نہیں اترتا۔
یہ شہر روز نئی کہانی سناتا ہے، اور ہر کہانی کے پیچھے ایک خاموش ہدایت کار ہوتا ہے… جو خود کبھی پردے پر نہیں آتا۔
اسلام آباد کی خامشی صرف خامشی نہیں، یہ ایک زبان ہے—طاقتوروں کی، منصوبہ سازوں کی، اور ان کہانی نویسوں کی جو اس شہر کو ایک خاموش اسٹیج بنا کر ہر روز نئی اسکرپٹ پر پرفارمنس کرواتے ہیں۔
نتیجہ: ایک انوکھا شہر
اسلام آباد ایک ایسا شہر ہے جو بیک وقت پُر امن بھی ہے اور پُر ہنگام بھی۔ یہاں کا ہر خاموش لمحہ کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔ یہاں کی سڑکوں پر چلنے والے قدم بظاہر عام لگتے ہیں، لیکن وہ قدم کسی تاریخ کے دہانے کی طرف بڑھتے ہو سکتے ہیں۔
یہ شہر کسی ایک جماعت، ایک ادارے یا ایک سوچ کا نہیں—یہ شہر خود ایک بیانیہ ہے، ایک علامت ہے، اور شاید ایک معمہ بھی۔
کیونکہ اسلام آباد کی خامشی کبھی خالی نہیں ہوتی، اس میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی راز چھپا ہوتا ہے۔