
پاکستان میں انسانیت کی روشن مثال: 14 سالہ جواد خان کے عطیہ کردہ اعضاء نے کئی زندگیاں بچا لیں
ایک افسوسناک حادثے میں جان کی بازی ہارنے والے چودہ سالہ جواد خان کے عطیہ کردہ اعضاء، کئی افراد کو نئی زندگی کی نوید دے گئے
سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی
خیبر پختونخوا کے کم عمر شہری جواد خان نے اپنی مختصر زندگی میں ایسا کارنامہ سرانجام دے دیا جو برسوں تک یاد رکھا جائے گا۔ ایک افسوسناک حادثے میں جان کی بازی ہارنے والے چودہ سالہ جواد خان کے عطیہ کردہ اعضاء، کئی افراد کو نئی زندگی کی نوید دے گئے۔
ڈاکٹرز، ماہرین اور سماجی کارکنان جواد خان کے اس جذبے کو انسانیت کا مظبوط ستون قرار دے رہے ہیں، جو نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر ایک مثالی واقعہ بن گیا ہے۔
حادثہ، فیصلہ اور عطیہ
جواد خان، جو کہ ایک ذہین طالب علم اور فٹبال کا شوقین نوجوان تھا، گزشتہ ہفتے ایک سڑک حادثے کا شکار ہو کر شدید زخمی ہوا۔ ڈاکٹروں کی بھرپور کوششوں کے باوجود اسے بچایا نہ جا سکا۔ اہلِ خانہ نے دکھ اور کرب کی اس گھڑی میں ایک بڑا فیصلہ لیتے ہوئے اس کے دل، گردے، جگر اور قرنیہ عطیہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
یہ اعضاء کراچی میں موجود ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے ٹرانسپلانٹ یونٹ میں فوری طور پر منتقل کیے گئے جہاں ماہر ڈاکٹروں نے انہیں مستحق مریضوں میں کامیابی سے منتقل کیا۔
"جواد کے اعضاء نے نئی زندگی دی” – ڈاؤ یونیورسٹی
ڈاؤ یونیورسٹی کے مطابق:”جواد خان کے عطیہ کردہ اعضاء نے کم از کم پانچ افراد کو نئی زندگی عطا کی۔ ان میں ایک نوجوان خاتون جسے گردوں کی شدید بیماری لاحق تھی، ایک آٹھ سالہ بچہ جسے جگر کی پیوندکاری کی ضرورت تھی، اور دو نابینا افراد شامل ہیں جنہیں بینائی واپس ملی۔”
یونیورسٹی نے جواد خان کو "ہیرو آف لائف” کا خطاب دیتے ہوئے اس اقدام کو پاکستان میں اعضاء عطیہ کرنے کے رجحان میں سنگِ میل قرار دیا ہے۔
پاکستان میں اعضاء عطیہ کرنے کی صورتِ حال
پاکستان میں ہر سال ہزاروں مریض گردے، جگر، دل اور دیگر اعضاء کے امراض میں مبتلا ہو کر انتقال کر جاتے ہیں کیونکہ بروقت ڈونرز دستیاب نہیں ہوتے۔ ڈاؤ یونیورسٹی کے مطابق:”اگر پاکستان میں اعضاء عطیہ کرنے کے بارے میں آگاہی میں اضافہ کیا جائے تو ہر سال کم از کم 50,000 جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔”
لیکن بدقسمتی سے مذہبی تذبذب، قانونی پیچیدگیاں اور سماجی کم آگاہی کی وجہ سے یہ سلسلہ سست روی کا شکار ہے۔
خاندان کا پیغام: ‘ہم چاہتے ہیں کہ جواد کی کہانی دوسروں کو حوصلہ دے’
جواد کے والد نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا:”ہمیں اپنے بیٹے کی جدائی کا شدید دکھ ہے، مگر ہمیں خوشی ہے کہ اس کے جانے کے بعد بھی وہ زندہ ہے — دوسروں کی سانسوں میں، ان کی بینائی میں، ان کی دعاؤں میں۔ ہم چاہتے ہیں کہ جواد کی کہانی پاکستان بھر میں سنائی جائے تاکہ دوسرے والدین بھی ایسا فیصلہ لینے کا حوصلہ پائیں۔”
قانونی اور سماجی ضروریات
پاکستان میں ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی (HOTA) کے تحت اعضاء عطیہ کرنے کی قانونی راہ موجود ہے، تاہم اس کے نفاذ میں کئی چیلنجز حائل ہیں جن میں:
معاشرتی غلط فہمیاں
مذہبی حوالے سے جھجھک
انفراسٹرکچر کی کمی
اور تربیت یافتہ طبی عملے کی قلت
ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ میڈیا، تعلیمی ادارے، اور مذہبی رہنما مل کر اس نازک اور اہم موضوع پر عوام میں شعور پیدا کریں۔
نتیجہ: ایک موت، کئی زندگیاں
جواد خان کی قربانی ایک سوال اٹھاتی ہے: کیا ہم اپنے پیاروں کی زندگی بچا کر کسی اور کی زندگی نہیں سنوار سکتے؟ اعضاء کا عطیہ نہ صرف ایک فرد بلکہ پورے معاشرے کو نئی زندگی دیتا ہے۔
جواد خان اب نہیں، مگر اُس کی دھڑکنیں، اُس کی روشنی اور اُس کا جذبہ کئی جسموں میں زندہ ہے۔