انٹرٹینمینٹ

دنیا بھر میں جنسی تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جا رہا ہے — اقوام متحدہ کا عالمی برادری سے عملی اقدامات کا مطالبہ

"جنسی تشدد ایک وحشیانہ ہتھیار ہے جو انسانیت کے بنیادی اقدار کے خلاف ہے۔ اسے جبر، اذیت اور خوف پھیلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے

مدثر احمد- امریکا، وائس آف جرمنی کے ساتھ
آج دنیا بھر میں "جنسی تشدد کے خاتمے کا عالمی دن” انتہائی سنجیدگی اور حساسیت کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔ اس دن کا مقصد دنیا بھر میں مسلح تنازعات کے دوران جنسی تشدد کے واقعات کی روک تھام، متاثرین کی داد رسی اور عالمی شعور کی بیداری کو فروغ دینا ہے۔ اس دن کی بنیاد اس تاریخی لمحے پر رکھی گئی جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پہلی مرتبہ متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی، جس میں جنگی حالات میں جنسی تشدد کو ایک "جنگی ہتھیار” اور عالمی امن و سلامتی کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا گیا۔
جنسی تشدد — ایک وحشیانہ ہتھیار
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے اس موقع پر ایک اہم پیغام جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ:
"جنسی تشدد ایک وحشیانہ ہتھیار ہے جو انسانیت کے بنیادی اقدار کے خلاف ہے۔ اسے جبر، اذیت اور خوف پھیلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ جرم متاثرہ افراد کی جسمانی و ذہنی صحت کو تباہ کر کے رکھ دیتا ہے اور پوری برادریوں کو پائیدار زخم دیتا ہے۔”
انہوں نے زور دیا کہ جنسی تشدد کے خاتمے، متاثرین کو انصاف کی فراہمی، اور مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے لیے عالمی برادری کو متحد ہو کر فوری اور مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
تنازعات میں جنسی تشدد: ایک بڑھتا ہوا عالمی چیلنج
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق اور مختلف بین الاقوامی این جی اوز کی رپورٹس کے مطابق، دنیا کے مختلف خطوں میں جاری جنگوں اور اندرونی تنازعات میں خواتین، بچے اور حتیٰ کہ مرد بھی جنسی تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔ شام، یمن، سوڈان، کانگو، افغانستان اور میانمار جیسے ممالک میں مسلح گروہوں کی جانب سے جنسی تشدد کو منظم طریقے سے استعمال کیے جانے کی مثالیں عالمی برادری کے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔
یہ تشدد صرف متاثرہ فرد کی زندگی پر ہی اثر انداز نہیں ہوتا بلکہ اس سے معاشروں کا سماجی تانا بانا بکھر جاتا ہے، خاندان ٹوٹ جاتے ہیں، اور برادریاں عدم اعتماد، خوف اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں۔
پاکستان میں صورتحال اور چیلنجز
پاکستان میں بھی اگرچہ براہ راست مسلح تنازعات کی شدت کم ہے، تاہم یہاں بھی جنسی تشدد کے کئی واقعات رپورٹ ہوتے ہیں، بالخصوص خواتین، بچوں اور کمزور طبقات کے خلاف۔ ماہرین کے مطابق، سماجی شرم، خاموشی، عدالتی پیچیدگیاں اور متاثرین کے لیے مناسب سپورٹ سسٹم کا فقدان ان جرائم کے خلاف مؤثر کارروائی میں رکاوٹ ہیں۔
حکومتِ پاکستان، انسانی حقوق کمیشن، اور متعدد سول سوسائٹی تنظیمیں اس حوالے سے شعور اجاگر کرنے، متاثرین کو قانونی و نفسیاتی مدد فراہم کرنے اور قوانین میں اصلاحات کے لیے کام کر رہی ہیں۔ تاہم، ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔
عالمی برادری کے اقدامات اور پیش رفت
اقوام متحدہ کی زیر نگرانی کئی ممالک میں "Conflict-Related Sexual Violence (CRSV)” کے خلاف خصوصی کورٹس اور ٹربیونلز قائم کیے گئے ہیں جہاں متاثرین کی گواہی کو مرکزی اہمیت دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ، "یو این ویمن” اور دیگر ادارے متاثرین کی بحالی، بحالی مراکز کے قیام، اور معاشرتی قبولیت کے لیے مہمات چلا رہے ہیں۔
ایک اجتماعی انسانی ذمہ داری
جنسی تشدد صرف ایک فرد یا قوم کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ پوری انسانیت کے ضمیر کا امتحان ہے۔ چاہے وہ جنگ کا میدان ہو یا معاشرتی سطح پر پھیلتی زیادتیاں، جنسی تشدد کے خلاف آواز اٹھانا، متاثرین کے ساتھ کھڑا ہونا اور عدل و انصاف کی راہ ہموار کرنا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔
آج کا دن ہمیں یہ یاد دہانی کراتا ہے کہ خاموشی مجرموں کو طاقت دیتی ہے، اور اقدام ہی وہ راستہ ہے جو ظلم کے اندھیروں میں روشنی کا چراغ جلانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button