کالمزحیدر جاوید سید

ٹرمپ فیلڈ مارشل ملاقات اور سازشی تھوریوں کے ’’دہی بھلے‘‘……حیدر جاوید سید

ملاقات کا وقت ایک گھنٹے تھا لیکن دوگھنٹے تک جاری رہی۔ ہمارے ہاں اس ملاقات کو لے کر ٹھنڈی میٹھی سازشی تھیوریاں اور دہی بھلے بیچے جارہے ہیں۔

چار اور ایران اسرائیل جنگ نے ماحول بنارکھا ہے۔ اس ’’رجے پُجے‘‘ ماحول میں اپنے فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر الحسنی نے دوپہر کے کھانے کی میز پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی۔
اخبارات میں بس اتنا ہی آیا ہے کہ کھانا اچھا اور خوش ذائقہ تھا باتیں دلچسپ تھیں ۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ’’دونوں جانب سے ایران اسرائیل تنازع کے پرامن حل کی اہمیت پر زور دیا گیا ، ٹرمپ تجارتی شراکت داری کے خواہش مند ہیں” ،
عالمی ذرائع ابلاغ بتارہے ہیں کہ پاکستان کو تشویش ہے کہ اسرائیل نے دوسرے ملک (ایران) کی جوہری تنصیبات پر حملہ کر کے جو مثال قائم کی ہے وہ بھارت کے ساتھ حالیہ تصادم کے تناظر میں کامیاب ہوسکتی ہے۔‘‘ کہا جارہا ہے کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے ٹرمپ سے ملاقات میں موقف اپنایا کہ ایران میں موجودہ حکومت ختم ہوئی تو سرحد پر دہشت گرد فائدہ اٹھائیں گے۔ اس لئے جنگ بندی کی کوششیں کی جانی چاہئیں۔
ملاقات کا وقت ایک گھنٹے تھا لیکن دوگھنٹے تک جاری رہی۔ ہمارے ہاں اس ملاقات کو لے کر ٹھنڈی میٹھی سازشی تھیوریاں اور دہی بھلے بیچے جارہے ہیں۔
ان میں پیش پیش وہ طبقہ ہے جس کے دیوتا سمان لیڈر نے اپنے آرمی چیف کے ساتھ ٹرمپ کے پچھلے دور میں اس سے ملاقات کی اور کشمیر کے معاملے پر "ہلکا ہاتھ” رکھنے کا یقین دلایا۔ اس وقت کے آرمی چیف کو بعدازاں اس کا حقِ خدمت ، مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع دے کر ادا کیا گیا۔
مدت ملازمت میں توسیع کے اس آئینی بندوبست میں اس وقت کے بڑے منصف آصف سعید کھوسہ بھی شامل تھے میں آج بھی اپنی اس خبر پر قائم ہوں کہ
’’آرمی چیف کی مدت ملازمت کا معاملہ سپریم کورٹ میں لے جانے اور پھر سپریم کورٹ کا ’’بال‘‘ پارلیمنٹ کے کورٹ میں پھینک دینا ہر دو منصوبہ بندی کا حصہ تھا اس منصوبہ بندی کے چار کردار تھے آصف سعید کھوسہ، وفاقی قانون سنیٹر فروغ نسیم، وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ۔‘‘
ذرا یاد کیجئے سال 2019ء کے جن دنوں میں وزیراعظم عمران خان اپنے غیرریاستی امریکی دورہ میں زرداری اور نوازشریف کو جیل میں ملنے والی سہولتیں چھین لینے کی بڑھکیں مارتے اپنے ماننے والوں سے تالیاں بجواتے اور پھر کہتے پھر رہے تھے کہ
’’وہ شاہد خاقان عباسی روز کہتا تھا میں نے کوئی جرم کیا ہے تو مجھے گرفتار کرو‘‘ لو ہم نے اسے پکڑ کر جیل میں ڈال دیا تاکہ اس کا شوق پورا ہو‘‘۔
عین انہی دنوں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ امریکی پیٹناگون کی دعوت پر امریکہ کہ سرکاری دورے پر تھے اور پینٹاگون کی تاریخ میں پہلی بار کس غیرملکی آرمی چیف کو 21 توپوں کی سلامی دی گئی تھی۔
تب جنرل قمر جاوید باجوہ کی درخواست پر ہی عمران خان کے نجی دورے کو ریاستی دورہ کا درجہ دے کر صدر ٹرمپ سے ملاقات بھی کرائی گئی۔
اس دورے کے خاتمے پر پاکستان پہنچ کر عمران خان نے بیان دیا کہ ” مجھے ایسا لگتا ہے جیسے دوسری بار ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں‘‘۔
جنرل باجوہ اپنی توسیع کروانے کے پروگرام میں جُت گئے اور بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے باضابطہ ریاست کا حصہ بنالیا۔
جواباً عمران خان نے آدھا گھنٹہ کھڑے ہوکر احتجاج کا اعلان کیا جو حسب پروگرام ٹھس ہوگیا
معاف کیجئے گا یہ قصہ کردار اور وارداتیں یوں یاد آئیں کہ گرم توے پر بیٹھے انصافی دعویٰ کررہے ہیں کہ فیلڈ مارشل نے ملک کا سودا کردیاہے ، کچھ کہہ رہے ہیں کہ عاصم منیر نے ہی سارے کام کرنے ہیں تو حکومت کی چھٹی کردیں۔ ایک بھگوڑی کال گرل اور ماضی میں دولت اسلامیہ عراق الشام کے مجاہدین کو
’’زندہ گوشت‘‘ فراہم کرنے کے کاروبار میں ملوث یوٹیوبر کا دعویٰ ہے جنرل عاصم منیر نے ایران کے خلاف امریکہ کو اڈے دینے یقین دلادیا ہے۔
ایک طبقہ ان دونوں اور ان جیسوں کی باتوں کو آگے بڑھارہا ہے۔ ٹرمپ فیلڈ مارشل ملاقات اطلاعات کے مطابق دو حصوں میں تھی پہلے حصے میں صرف یہی دونوں تھے دوسرے حصے میں ٹرمپ کے مشیر قومی سلامتی اور ایک آدھ مزید امریکی کے علاوہ پاکستانی آئی ایس آئی کے سربراہ موجود تھے۔
چلیں ہم مان لیتے ہیں فیلڈ مارشل نے ملک کا سودا کردیا امریکہ کو ایران کے خلاف اڈے دیئے جارہے ہیں لیکن اس ملاقات کے بعد ٹرمپ اور فیلڈ مارشل نے اخبار نویسوں کے سوالات کے جواب میں جو کچھ کہا وہ یکسر مختلف ہے۔
اس ملاقات کے بعد ہی ایران اسرائیل جنگ کے حوالے سے ٹرمپ سے منسوب یہ بیان سامنے آیا کہ ’’انہوں (ٹرمپ) نے امریکہ کے ایران پر حملے کی منظوری دینے کی تردید کردی ہے۔ دوسری جانب وائٹ ہائوس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ
” امریکی نمائندے اور ایرانی وزیر خارجہ میں رابطہ ہوا ہے۔ ٹرمپ جنگ کے متعلق فیصلہ دو ہفتوں میں کریں گے۔ ایران سے مذاکرات کے امکانات اب بھی موجود ہیں ”
مگر بھگوڑی کال گرل اور خودساختہ جلاوطن یوٹیوبر بضد ہیں کہ ان کی ’’خبر‘‘ سوفیصد درست ہے۔
ویسے یہ حقیقت ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے لوگوں کا عمومی مزاج یہی ہے یہ خیر کے پہلو پر سازشی تھیوریوں سے بنے ’’دہی بھلوں‘‘ کو زیادہ پسند کرتے اور یہ بھی کہ اپنے اپنے محبوب (وہ مذہبی ہو یا سیاسی) میں خدائی صفات بدرجہ اتم پاتے اور پیش کرتے ہیں۔ محبوب کی غلطی ان کے نزدیک غلطی نہیں ہوتی بلکہ یہ بھی ایک ادا ہوتی ہے۔
خیر چھوڑیئے ہم فقیر راحموں کے عالمی مفت بر ڈونلڈ ٹرمپ اور فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر الحسنی و جالندھری کی ملاقات پر بات کرتے ہیں۔
بلاشبہ تحریک انصاف کے امریکہ میں موجود ہمدردوں نے ان کے دورہ امریکہ کے موقع پر ان کے خلاف متاثرکن مظاہرہ کیا اور حسب دستور خوب گالم گلوچ بھی خوب کی اس مظاہرے میں سینکڑوں افراد دوردراز کی ریاستوں سے شرکت کے لئے پہنچے۔ عمران خان اوورسیز پاکستانیوں کے بڑے حصے کا کرش ہیں ملک کے اندر بھی بلاشبہ ایک بڑا طقبہ ان کا حامی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ مقبولیت کی اس معراج پر ہرگز نہیں کہ ایک ہجوم آگے بڑھے اور جیل کا دروازہ توڑ کر انہیں باہر نکال لے۔

اسٹیبلشمنٹ، بیوروکریسی اور عدلیہ میں ان کے ہمدرد اب بھی موجود ہیں اور وہ ان کے لئے موقع ملتے ہی دائو لگانے سے چوکتے ہرگز نہیں۔
البتہ انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی اور سیاسی جدوجہد میں بہت فرق ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان ایک کثیر القومی اور کثیرالمسلکی ملک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے 2013ء سے 2018ء والے دور میں سعودی عرب کی شدید ترین خواہش پر یمنی حوثیوں کے خلاف پاکستان نے سعودی عرب کی دفاعی مدد نہیں کی تھی پھر اس کا خمیازہ نوازشریف کو بھگتنا پڑا۔
اس وقت بھی اسٹیبلشمنٹ جتنی مرضی طاقتور ہو وہ اور حکومت دونوں ایران اسرائیل جنگ میں امریکہ کی مرضی کا کردار ادا کرنے پر رضامند نہیں ہوسکتے ایران میں رجیم چینج کا کھیل کامیاب ہوا تو یہ پورے خطے کو بدترین حالات سے دوچار کردے گا
اور اگر پاکستان نے موجودہ حالات میں ایوب ضیا اور مشرف کی طرح امریکی طفیلی یعنی کرائے کا سپاہی بننے کا فیصلہ کیا تو دنیا کی کوئی طاقت جغرافیائی ٹوٹ پھوٹ کو نہیں روک پائے گی اس سے صرف پاکستان متاثر نہیں ہوگا ایران، شام، ترکی اور عراق بھی اس کی زد میں آئیں گے۔
سادہ لفظوں میں ایران اور پاکستان میں بلوچ علیحدگی پسندوں کی تحریکیں جبکہ ترکی شام اور عراق میں کرد تحریکیں ، کیا ان کے پیچھے موجود قوتیں بدلتے منظرنامے میں نچلی بیٹھیں گی؟
کم از کم اس طالب علم کا جواب نفی میں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ محض اسٹیبلشمنٹ سے نفرت میں ا نصافی جو سودا بیچ رہے ہیں اس کے خریدار خود ان کی صفوں میں بھی کم ہی ہوں گے ہاں یہ ضرور ہے کہ انصافی ہوں یا دوسرے سب کو ریاست اور حکومت پر دبائو بڑھاکر رکھنا چاہیے کہ وہ ایسا کوئی فیصلہ نہ کرے جو ملکی یکجہتی اور جغرافیہ کی بنیادیں ہلاکر رکھ دے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button