پاکستاناہم خبریں

صدرِ مملکت کے دستخط کے بعد ستائیسویں آئینی ترمیم باقاعدہ طور پر آئینِ پاکستان کا حصہ بن گئی

صدر آصف علی زرداری کے دستخط کے ساتھ ہی یہ آئینی بل اب ملک کے آئینی ڈھانچے کا مستقل حصہ بن چکا ہے۔ وزارتِ قانون و انصاف نے جمعرات کی شام اس حوالے سے سرکاری گزٹ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا۔

ذرائع: وزارتِ قانون و انصاف، پارلیمانی ریکارڈ، سرکاری گزٹ

اسلام آباد: پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے جمعرات کے روز ستائیسویں آئینی ترمیم پر دستخط کر دیے، جس کے ساتھ ہی یہ ترمیم باقاعدہ طور پر آئینِ پاکستان کا حصہ بن گئی۔ اس سے ایک روز قبل یہ ترمیم وفاقی پارلیمان کے دونوں ایوانوں — قومی اسمبلی اور سینیٹ — سے بھاری اکثریت کے ساتھ منظور کی گئی تھی۔

صدرِ مملکت کے دستخطوں کے بعد آئینِ پاکستان میں ایک اور اہم آئینی تبدیلی شامل ہو گئی ہے، جس کے ذریعے ریاستی ڈھانچے میں اصلاحات، اختیارات کی منتقلی، اور ادارہ جاتی توازن کو بہتر بنانے سے متعلق دفعات میں ترامیم کی گئی ہیں۔


ترمیم کی منظوری کا پس منظر

ستائیسویں آئینی ترمیم کا مسودہ گزشتہ ہفتے وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد پارلیمان میں پیش کیا گیا تھا۔ قومی اسمبلی نے بدھ کے روز اس ترمیم کو دو تہائی اکثریت سے منظور کیا، جب کہ سینیٹ نے بھی اسی روز اسے بغیر کسی بڑی رکاوٹ کے منظوری دے دی۔ اس کے بعد آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت ترمیمی بل صدرِ مملکت کے دستخط کے لیے بھیجا گیا۔

صدر آصف علی زرداری کے دستخط کے ساتھ ہی یہ آئینی بل اب ملک کے آئینی ڈھانچے کا مستقل حصہ بن چکا ہے۔ وزارتِ قانون و انصاف نے جمعرات کی شام اس حوالے سے سرکاری گزٹ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا۔


ترمیم کی نمایاں خصوصیات

ذرائع کے مطابق، ستائیسویں آئینی ترمیم میں درج ذیل نکات شامل ہیں:

  • وفاق اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی مزید منصفانہ تقسیم؛

  • پارلیمانی کمیٹیوں کے دائرۂ اختیار کو وسعت دینا؛

  • احتسابی نظام اور انتخابی اصلاحات میں آئینی رہنمائی شامل کرنا؛

  • قومی سلامتی اور گورننس سے متعلق آئینی شقوں کی وضاحت اور ہم آہنگی۔

ترمیم کے تحت کچھ اہم شقوں میں ایسے اقدامات شامل کیے گئے ہیں جن کا مقصد اداروں کے مابین توازن قائم رکھنا اور جمہوری عمل کی تسلسل کو یقینی بنانا ہے۔


سیاسی و قانونی حلقوں کا ردِعمل

ترمیم کی منظوری اور نفاذ کے بعد ملک کے مختلف سیاسی و قانونی حلقوں میں اس اقدام کا خیرمقدم کیا جا رہا ہے۔
وفاقی حکومت کے ترجمان نے اسے "پاکستان کی جمہوری تاریخ میں ایک اہم سنگِ میل” قرار دیتے ہوئے کہا کہ:

"یہ ترمیم پارلیمنٹ کی خودمختاری، صوبائی شراکت داری اور آئینی توازن کے اصولوں کو مزید مضبوط کرتی ہے۔”

اپوزیشن جماعتوں نے بھی مجموعی طور پر اس ترمیم کو آئینی عمل کی کامیابی قرار دیا، تاہم بعض ارکان نے زور دیا کہ "عملی نفاذ کے دوران شفافیت اور مشاورت کو یقینی بنایا جائے”۔

قانونی ماہرین کے مطابق، ستائیسویں ترمیم اٹھارہویں اور پچیسویں ترامیم کے بعد ایک اور بڑی آئینی پیش رفت ہے جس سے وفاقی ڈھانچے میں ہم آہنگی بڑھے گی۔


صدرِ مملکت کا کردار اور آئینی طریقہ کار

آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 75 کے مطابق، جب بھی کوئی آئینی بل دونوں ایوانوں سے منظور ہوتا ہے تو صدرِ مملکت کے دستخط لازمی ہوتے ہیں۔ صدر کے دستخط کے بغیر کوئی بھی آئینی ترمیم نافذ العمل نہیں ہو سکتی۔

صدر آصف علی زرداری کے دستخطوں کے بعد ترمیم کا سرکاری نوٹیفکیشن وزارتِ قانون نے جاری کیا، جس کے ساتھ ہی آئینِ پاکستان کے متن میں ستائیسویں ترمیم کو شامل کر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد اب ملک بھر میں تمام ادارے اور صوبے اس ترمیم کے مطابق اپنی پالیسیوں کو ہم آہنگ کریں گے۔


آئینی عمل کا تسلسل

پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں ستائیسویں ترمیم کو ایک "تسلسلِ جمہوریت” کی علامت قرار دیا جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس ترمیم سے وفاقی پارلیمان کے کردار کو تقویت ملے گی اور آئینی اداروں کے درمیان باہمی اعتماد میں اضافہ ہوگا۔

یہ ترمیم ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ملک میں سیاسی و انتظامی اصلاحات پر قومی سطح پر بحث جاری ہے۔ مبصرین کے مطابق، یہ آئینی تبدیلی پاکستان کے جمہوری ارتقاء میں ایک نیا باب کھول سکتی ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button