
سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ
صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں شدت پسندوں نے اسسٹنٹ کمشنر سمیت چار افراد کو ہلاک کر دیا، جس کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ حکام کے مطابق، یہ حملہ اسسٹنٹ کمشنر شاہ ولی اور ان کے محافظوں کی گاڑی پر گھات لگا کر کیا گیا۔
حملے کی تفصیلات
حکام کا کہنا ہے کہ مشتبہ شدت پسندوں نے اسسٹنٹ کمشنر شاہ ولی کی گاڑی پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں اسسٹنٹ کمشنر کے دو محافظ اور ایک راہگیر بھی مارے گئے۔ اس حملے کا مقصد اسسٹنٹ کمشنر اور ان کے ہمراہ دیگر افراد کو نشانہ بنانا تھا، جو اپنے معمولات کے تحت سفر کر رہے تھے۔ حملے کے دوران شدت پسندوں نے انتہائی تیز رفتاری سے کارروائی کی، اور پھر موقع سے فرار ہو گئے۔
یہ واقعہ لکی مروت میں پولیس گاڑی کے قریب ہونے والے ایک خودکش دھماکے کے ایک روز بعد پیش آیا، جس میں ایک سینئر پولیس افسر کی ہلاکت کی خبر سامنے آئی تھی۔ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ شدت پسندوں کی سرگرمیاں پاکستان کے مختلف حصوں میں بڑھ گئی ہیں، جو نہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں بلکہ شہریوں کے لیے بھی خطرہ بن گئی ہیں۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کا ردعمل
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی نے اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے گہرے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے اس حملے کو دہشت گردانہ کارروائی قرار دیتے ہوئے متاثرہ خاندانوں سے تعزیت کی۔ انہوں نے پولیس کو ہدایت کی کہ اس واقعے کی تحقیقات فوری طور پر کی جائیں اور ملزمان کو گرفتار کر کے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ وزیر اعلیٰ نے آئی جی پولیس سے اس حملے کی تفصیلی رپورٹ طلب کر لی ہے تاکہ واقعے کی نوعیت اور اس میں ملوث افراد کی نشاندہی کی جا سکے۔
تحریکِ طالبان پاکستان کا شبہ
اس حملے کی ذمہ داری کسی بھی شدت پسند گروہ نے ابھی تک قبول نہیں کی، تاہم حکام کا کہنا ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پر اس حملے میں ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ٹی ٹی پی ماضی میں ایسے حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے اور پاکستان کے مختلف حصوں میں اس کے حملے معمول بن چکے ہیں۔ حالیہ برسوں میں تحریکِ طالبان پاکستان نے افغانستان کی سرزمین پر پناہ گزینی کی ہے، جہاں سے وہ پاکستان کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی جنگجو افغانستان کی سرزمین کا استعمال کر کے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ دوسری طرف کابل حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی آئی ہے، اور افغانستان میں پاکستانی طالبان کے ٹھکانوں کے بارے میں پاکستان کے خدشات کو تسلیم نہیں کرتی۔
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں کشیدگی
پاکستان میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی اور دہشت گرد حملوں نے اسلام آباد اور کابل کے درمیان تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا کر دی ہے۔ گزشتہ ماہ 9 اکتوبر کو کابل میں مبینہ طور پر ایک پاکستانی ڈرون حملہ کیا گیا، جس کے بعد سرحدی جھڑپوں میں درجنوں افراد کی ہلاکت کی خبریں سامنے آئیں۔ تاہم، 19 اکتوبر کو قطر کی ثالثی سے ایک جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا، جس کے بعد سرحدی علاقوں میں کشیدگی میں کمی دیکھنے کو ملی۔
پاکستان میں بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات
پاکستان میں شدت پسندی اور دہشت گردی کے واقعات میں حالیہ مہینوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ 2022 کے اواخر سے لے کر 2023 تک، ملک بھر میں دہشت گردوں کے حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جس میں پولیس اور سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو زیادہ تر نشانہ بنایا گیا۔ اس کے علاوہ، شہریوں اور عام لوگوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
پاکستانی حکومت اور فوج شدت پسندی کے خلاف بھرپور کارروائیاں کر رہی ہیں، تاہم سرحدی علاقوں میں موجود عسکریت پسندوں کی بڑھتی ہوئی موجودگی نے ان اقدامات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
نتیجہ
بنوں میں ہونے والے اس حملے نے ایک بار پھر پاکستان میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے خطرات کو اجاگر کیا ہے۔ اس حملے کی ذمہ داری کسی گروہ نے قبول نہیں کی، لیکن حکام کا خیال ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان اس کارروائی کے پیچھے ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں جاری دہشت گردی کی جنگ کے درمیان، حکومت اور سیکیورٹی فورسز کی کوششیں اس صورتحال کو قابو پانے کے لیے جاری ہیں، تاہم افغان سرحدی علاقوں میں موجود دہشت گرد گروپوں کی موجودگی پاکستان کے لیے ایک سنگین چیلنج بنی ہوئی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ اس حملے کے بعد خیبر پختونخوا کی حکومت اور سیکیورٹی ادارے کس طرح اس نوعیت کی کارروائیوں کا مقابلہ کرتے ہیں اور ملک بھر میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے خلاف کیا حکمت عملی اپناتے ہیں۔



