پاکستان پریس ریلیزاہم خبریں

اسلام آباد: ذہنی صحت اور خودکشی کا مسئلہ دوبارہ سرِعام، ایس پی عادل کی خودکشی نے ہلچل مچا دی

"خودکشی کو جرم سمجھنا غلط ہے۔ یہ ایک ذہنی بیماری کا نتیجہ ہے، بالکل ایسے جیسے کینسر ہے۔ پاکستان میں 60 فیصد نوجوان ذہنی دباؤ کا شکار ہیں، اور اگر ہم بات نہ کریں تو یہ خاموش قاتل بن جاتا ہے۔"

ناصر خان خٹک-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوزکے ساتھ

اسلام آباد میں جمعرات کو پولیس کے سینیئر افسر ایس پی عادل اکبر کی مبینہ خودکشی نے نہ صرف پولیس فورس بلکہ پورے معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ایک ایسے شخص کی اچانک زندگی کا خاتمہ، جو ہر روز عوام کی حفاظت کرتا رہا، ایک سوال چھوڑ گیا: کیا ہم ذہنی صحت کو اتنی سنجیدگی سے لیتے ہیں جتنی ضرورت ہے؟

اطلاعات کے مطابق، ایس پی عادل اکبر ایک روز قبل ڈاکٹر کے پاس گئے تھے، جنہوں نے ان کے لیے ڈپریشن کا علاج تجویز کیا تھا، تاہم اگلے دن انہوں نے انتہائی قدم اٹھا لیا۔ اس واقعے پر جہاں عوام اور ساتھی افسوس کا اظہار کر رہے ہیں، وہیں ذہنی صحت اور اس کے مسائل پر بھی دوبارہ بحث شروع ہو گئی ہے۔

صحافی نجم ولی خان نے اس واقعے پر اپنے ایک بیان میں کہا کہ:
"آپ پولیس میں ایس پی ہیں، اسلام آباد میں تعینات ہیں اور آپ خودکشی کر لیتے ہیں، آپ سے بڑا بزدل اور احمق کون ہے؟”
ان الفاظ پر مختلف شعبہ ہائے زندگی کے افراد نے شدید تنقید کی۔ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ تبصرہ ذہنی دباؤ کو نظر انداز کرتا ہے اور خودکشی کو محض "کمزوری” یا "بے وقوفی” قرار دیتا ہے، حالانکہ ماہرین کے مطابق ذہنی دباؤ ایک حقیقی اور سنگین بیماری ہے۔

ذہنی دباؤ: ایک خاموش قاتل

ڈپریشن اور خودکشی کے خیالات دماغ میں درد کے مرکز سے نکلتے ہیں، جسے ماہرین ‘ایملگڈالا’ کہتے ہیں۔ ہارورڈ میڈیکل اسکول کی ماہر نفسیات ڈاکٹر کیٹ ٹروٹ اپنی کتاب "شیڈو برین” میں لکھتی ہیں کہ یہ دماغی درد اتنا شدید ہو سکتا ہے کہ زندگی ایک بوجھ لگنے لگتی ہے۔ امریکہ کے مشہور مایو کلینک کے مطابق خودکشی کے خیالات اکثر ڈپریشن یا شدید دباؤ کی وجہ سے آتے ہیں اور انہیں کنٹرول کرنا اتنا آسان نہیں جتنا لگتا۔ جیسے جسمانی بیماریوں کو کنٹرول کرنے کے لیے طرزِ زندگی بدلنا پڑتا ہے، ویسے ہی ذہنی دباؤ میں مدد لینا ضروری ہے۔

پاکستان میں بھی ماہرین یہی موقف رکھتے ہیں۔ لاہور کے انسٹی ٹیوٹ آف کلینیکل سائیکالوجی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر ثمینہ شفیق کہتی ہیں کہ:
"خودکشی کو جرم سمجھنا غلط ہے۔ یہ ایک ذہنی بیماری کا نتیجہ ہے، بالکل ایسے جیسے کینسر ہے۔ پاکستان میں 60 فیصد نوجوان ذہنی دباؤ کا شکار ہیں، اور اگر ہم بات نہ کریں تو یہ خاموش قاتل بن جاتا ہے۔”

ڈاکٹر نعمان مسعود کا کہنا ہے کہ ایس پی عادل اکبر جیسی شخصیت بھی مدد مانگ رہی تھی، مگر ہمارے معاشرے میں بیماری کو بھی شرم یا گناہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

خودکشی کی حقیقی تصویر

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال سات لاکھ 20 ہزار لوگ خودکشی کرتے ہیں۔ یہ 15 سے 29 سال کی عمر کے نوجوانوں میں موت کی تیسری بڑی وجہ ہے۔ پاکستان میں خودکشی کی شرح بڑھ کر 9.8 پر پہنچ چکی ہے، یعنی ہر سال تقریباً 20 ہزار افراد اپنی زندگی کا خاتمہ کر رہے ہیں۔

ماہرین کے مطابق ذہنی دباؤ اور خودکشی کے خیالات دماغ کی ایک ‘طوفانی حالت’ ہیں۔ ڈاکٹر شاہزیب وضاحت کرتے ہیں کہ دماغ کے فیصلہ کرنے والے حصے یعنی پری فرنٹل کورٹیکس سست ہو جاتے ہیں جبکہ درد کا مرکز (ایملگڈالا) تیز ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً انسان اچھا یا برا فیصلہ کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے۔ برطانیہ کے نیورو سائنسدان ڈاکٹر ایڈورڈ بلیک لکھتے ہیں کہ یہ عارضی کیفیت ہے، لیکن اس وقت انسان کو لگتا ہے کہ ختم ہونے کا واحد راستہ یہی ہے۔

روک تھام اور علاج ممکن ہے

ماہرین کا کہنا ہے کہ خودکشی کے خیالات اور ذہنی دباؤ کی روک تھام ممکن ہے۔ بنیادی اقدامات میں شامل ہیں:

  1. کسی قریبی شخص سے اپنے خیالات کا شیئر کرنا تاکہ بوجھ ہلکا ہو۔

  2. روزانہ چہل قدمی یا کھیل کود میں حصہ لینا، کیونکہ ورزش دماغ میں خوشی کے کیمیکلز بڑھاتی ہے۔

  3. کسی ماہر نفسیات یا پروفیشنل سے مدد لینا۔ پاکستان میں ہیلپ لائنز جیسے سہارا (1166) اور روشنی دستیاب ہیں۔

  4. نیند اور کھانے کا مناسب وقت رکھنا، تاکہ دماغ کی بنیادیں مضبوط رہیں۔

ڈاکٹر شاہزیب کا کہنا ہے کہ خودکشی ایک ایسا فیصلہ ہے جو طوفان میں لیا جاتا ہے، اس لیے پہلے سے پلان بنانا ضروری ہے: دوست کا نام، محفوظ جگہ اور مدد کا نمبر یاد رکھیں۔ مدد مانگنا طاقت کی علامت ہے، کمزوری کی نہیں۔

نتیجہ

ایس پی عادل اکبر کی خودکشی نے ایک بار پھر ذہنی صحت کے موضوع کو اجاگر کیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ذہنی دباؤ اور خودکشی کے خیالات کسی کی شخصیت یا حوصلے کی کمی نہیں، بلکہ یہ ایک حقیقی بیماری ہے جس کا علاج موجود ہے۔ معاشرتی رویے میں تبدیلی، بروقت علاج اور بات چیت ہی نوجوانوں اور شہریوں کو اس خاموش قاتل سے بچا سکتی ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button