اہم خبریںپاکستان

اسد قیصر کی قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق سے ملاقات،پی ٹی آئی اور حکومت کیا حاصل کرسکے گی؟

حال ہی میں پی ٹی آئی کے چیئرمین گوہر علی خان نے قومی اسمبلی کے فلور پر خطاب کرتے ہوئے حکومتی اتحاد اور اپنی جماعت کے درمیان مسائل کے حل کے لیے مذاکراتی عمل میں شامل ہونے پر رضامندی کا اظہار کیا۔

پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما ایک طویل عرصے کے بعد حکومت سے مذاکرات کے لیے لچک کا مظاہرہ کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب کچھ حکومتی نمائندے سخت موقف اپنائے ہوئے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہو رہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اتنی کمزور نہیں ہوئی کہ حکومت حزب اختلاف کی اس جماعت کے ساتھ مذاکرات کو مکمل طور پر مسترد کر سکے۔
سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر توصیف احمد خان کا کہنا ہے، ”پی ٹی آئی کے حالیہ احتجاج کی ناکامی کے بعد حکومت یہ سوچ سکتی ہے کہ یہ جماعت کمزور ہو گئی ہے لیکن یہ حقیقت نہیں۔ اسے اب بھی ملک گیر اور بین الاقوامی سطح پر حمایت حاصل ہے۔ حکومت یقیناً مذاکرات کرے گی، اور اگر ایسا نہ کیا تو یہ اس کے حق میں نہیں ہوگا۔‘‘
حال ہی میں پی ٹی آئی کے چیئرمین گوہر علی خان نے قومی اسمبلی کے فلور پر خطاب کرتے ہوئے حکومتی اتحاد اور اپنی جماعت کے درمیان مسائل کے حل کے لیے مذاکراتی عمل میں شامل ہونے پر رضامندی کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے بانی عمران خان نے مذاکرات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے، لیکن انہوں نے واضح کیا کہ کمیٹی کے قیام کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ ان کا کہنا تھا،”ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ کوئی تیسری قوت اس ایوان پر قابض نہ ہو۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اسے ہماری کمزوری نہ سمجھیں اور غلطیوں کا ازالہ کریں۔
گوہر خان نے حکومت کو انہیں دوبارہ سڑکوں پر آنے پر مجبور نہ کرنے کی تنبیہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ حکومت پی ٹی آئی کے ساتھ کی گئی زیادتیوں پر معافی مانگے اور ڈی چوک اسلام آباد میں 26 نومبر کے احتجاج کے دوران ہلاک ہونے والے پارٹی کارکنوں کے لیے معاوضے کا اعلان کرے۔
پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت سنی اتحاد کونسل کے سربراہ حامد رضا نے اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر صحافیوں کو بتایا کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان جلد مذاکرات ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ”اگر حکومت نے کوئی قابل عمل پیشکش دی ہوتی تو ہم اس پر غور کرتے، ہم اب بھی کسی سنجیدہ پیشکش پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اگر ان کی اتحادی ن لیگ براہ راست پی ٹی آئی سے مذاکرات نہیں کرنا چاہتی تو وہ اس ان کے درمیان پل کا کردار ادا کر سکتی ہےپیپلزپارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اگر ان کی اتحادی ن لیگ براہ راست پی ٹی آئی سے مذاکرات نہیں کرنا چاہتی تو وہ اس ان کے درمیان پل کا کردار ادا کر سکتی ہے
مقامی زرائع ابلاغ پر ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ پی ٹی آئی کے رہنما اسد قیصر کی قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق سے ملاقات ہوئی ہے، جس میں دونوں رہنماؤں نے باقاعدہ مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق کیا۔
دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے ان خبروں کو سختی سے مسترد کر دیا کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں۔وفاقی وزیر نے کہا، ”پی ٹی آئی کو پہلے نو مئی اور چھبیس نومبر کے واقعات پر اپنا موقف واضح کرنا ہوگا۔ بات چیت شروع ہونے سے پہلے، پی ٹی آئی کو یہ بتانا ہوگا کہ ان واقعات کے پیچھے کون تھا۔‘‘
ایک طرف حکمران مسلم لیگ (ن) کے بعض رہنما پی ٹی آئی کی لچکدار پالیسی کے جواب میں سخت موقف اختیار کر رہے ہیں، تو دوسری جانب ن لیگ کی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی ہمیشہ سیاسی گفتگو کا خیر مقدم کرتی رہی ہے اور اس وقت بھی یہی کرے گی۔
انہوں نے کہا، ”اگر مسلم لیگ (ن) کے لیے براہ راست پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہونا مشکل ہے، تو اس صورت میں پیپلز پارٹی یا جے یو آئی (ف) مذاکرات کو سہولت فراہم کر سکتی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت مسائل کے حل کے لیے وسیع البنیاد مذاکرات کی ضرورت ہے۔‘‘
بعض سیاسی منصرین کا بھی کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے حکمران جماعت کا سخت رویہ عوامی بیانیے کے لحاظ سے اس کے خلاف جائے گا۔
سیاسی تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا ہے، ”حکومت کا غیر لچکدار رویہ اسے کمزورکرے گا کیونکہ حکومت پی ٹی آئی پر مذاکرات نہ کرنے کا الزام لگاتی رہی ہے۔ اب اگر حکومت سخت موقف اپناتی ہے تو اسے بھی اسی الزام کا سامنا کرنا پڑے گا، جو پی ٹی آئی کے موقف کو مضبوط کرے گا کہ حکومت مسائل کا حل نہیں چاہتی۔‘‘
انہوں نے وزیر اطلاعات کی طرف سے سخت موقف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دونوں جماعتوں میں سخت گیر لوگ موجود ہیں، لیکن یہ ایک ان دونون جماعتوں کی ایک دوسرے کے خلاف طویل سیاسی جدوجہد کی وجہ سے قدرتی ہے۔ آخر کار حکومت مذاکرات کرے گی کیونکہ یہ دونوں جماعتوں کے مفاد میں ہے۔
عوامی اور سیاسی حلقوں میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ حکومت ملک کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی منظوری کے بغیر کوئی اقدام نہیں کرتی اور اگر اسے اسٹیبلشمنٹ کی جانبسے گرین سگنل نہیں ملتا تو وہ پی ٹی آئی کے ساتھ صلح نہیں کر سکتی۔
سابق وزیر اعظم اور معروف سیاستدان شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ انہیں حکومت اور پی ٹی آئی کے مایبن بات چیت کی کامیابی کے امکانات کم نظر آتے ہیں۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے شاہد خاقان کا کہنا تھا، ”
پی ٹی آئی کے حکومت سے دو بڑے مطالبات ہیں ، ان میں پہلا عمران خان کی فوری رہائی اور دوسرا فروری کے انتخابات میں میبنہ دھاندلیوں کے خلاف ایک عدالتی کمیشن کا قیام شامل ہے۔ تو یہ دونوں مطالبات حکومت کے لیے تسلیم کرنا مشکل ہوں گے۔ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے اور حکومت اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ اس کی تحقیقات کے لیے ایک عدالتی کمیشن تشکیل دے سکے۔‘‘
سیاسی تجزیہ کاروں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ مسلم لیگ ن فوج کی اشیر باد کے بغیر پی ٹی آئی کے ساتھ کسی بھی قسم کی ڈیل نہیں کر سکتی سیاسی تجزیہ کاروں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ مسلم لیگ ن فوج کی اشیر باد کے بغیر پی ٹی آئی کے ساتھ کسی بھی قسم کی ڈیل نہیں کر سکتی
تاہم بعض مبصرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر پی ٹی آئی اور حکومت کے مابین برف پگھل رہی ہے تو یہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی رضامندی کے ساتھ ہو رہا ہے کیونکہ امن ملک کے تمام حلقوں کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سےمظہر عباس کا کہنا ہے، ”اسپیکر اس وقت دونوں جماعتوں کو قریب لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جو کچھ ہو رہا ہے وہ یقینی طور پر فوجی اسٹیبلشمنٹ کی رضامندی کے ساتھ ہو رہا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں۔‘‘
ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ اگر مذاکراتی عمل شروع ہوتا ہے تو پی ٹی آئی اس سے کیا حاصل کر سکتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ بھی مکمل طور پر ان دونوں سیاسی فریقوں کے ہاتھ میں نہیں کہ وہ کیا ڈیل کرتے ہیں بلکہ یہاں بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ کا کردار فیصلہ کرے گا کہ پی ٹی آئی کیا حاصل کر سکتی ہے اور کہاں اسے سمجھوتہ کرنا ہوگا۔
تجزیہ کار ڈاکٹر توصیف کا کہنا ہے، ”سب کچھ فوجی اسٹیبلشمنٹ پر منحصر ہے کہ وہ پی ٹی آئی کو کتنی ریلیف فراہم کرتی ہے۔ عمران خان کی رہائی ایک بڑا سوال ہے کیونکہ وہ کبھی آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اگر پی ٹی آئی نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات کے بعد گرفتار ہونے والے اپنے سیاسی قیدیوں کو رہا کرانے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو یہ پارٹی کے لیے ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ انہوں نےکہا، ”پہلے مرحلے میں عمران خان کی رہائی کا امکان نہیں۔‘‘

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button