پاکستاناہم خبریںتازہ ترین

پاکستان میں نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کا قیام

یہ ادارہ اب وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر ونگ کی جگہ لے گا اور پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) 2025 کے تحت کام کرے گا

(سید عاطف ندیم-پاکستان): پاکستان میں سائبر کرائمز کی بڑھتی ہوئی شکایات اور ان سے نمٹنے کے لیے حکومت نے ایک نیا ادارہ، نیشنل سائبر کرائم اینڈ انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو جلد اپنی سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز کرے گا۔
یہ ادارہ اب وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر ونگ کی جگہ لے گا اور پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) 2025 کے تحت کام کرے گا۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ این سی سی آئی اے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو گا اور ملک بھر میں ضلعی سطح پر ’’سائبر تھانے‘‘ قائم کیے جائیں گے تاکہ شہریوں کی رسائی آسان بنائی جا سکے۔پولیس سروس آف پاکستان کے ایک اچھی شہرت کے حامل افسر وقار الدین سید کو اس نئے ادارے کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا ہے۔
2024 میں ایف آئی اے کو موصول ہونے والی کل شکایات میں سے تقریباً 80 فیصد سائبر کرائمز سے متعلق تھیں۔ تاہم ایف آئی اے کے مجموعی وسائل کا صرف 20 فیصد حصہ سائبر ونگ کو فراہم کیا گیا، جبکہ 80 فیصد وسائل امیگریشن، اکنامک کرائم اور اینٹی کرپشن ونگز پر خرچ کیے گئے۔
این سی سی آئی اے کے حکام کے مطابق، اسی فرق کو ختم کرنے اور سائبر کرائمز کی تیزی سے بڑھتی ہوئی نوعیت کے مطابق وسائل اور مہارت مختص کرنے کے لیے نیا ادارہ قائم کیا جا رہا ہے۔
این سی سی آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر محمود الحسن ستی نے گفتگو میں بتایا کہ اس ’’ادارے کے لیے مخصوص وردی، لوگو، اور دیگر انتظامی اقدامات کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔‘‘ ان کے مطابق ایف آئی اے کے سائبر ونگ کی افرادی قوت، ٹیکنالوجی اور دیگر وسائل این سی سی آئی اے کو منتقل کر دیے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ادارہ صرف شکایات سننے تک محدود نہیں ہوگا بلکہ تکنیکی تربیت، ڈیجیٹل فارنزک، اور تیز رفتار کارروائی کے لیے ایک جامع فریم ورک پر کام کرے گا۔
محمود الحسن ستی کے مطابق، ’’جو شخص جان بوجھ کر کسی ایسی اطلاع کو، جس کے غلط یا جھوٹا ہونے کا اسے علم ہو یا خدشہ ہو، پھیلائے گا یا عوام میں خوف و ہراس پیدا کرے گا، اسے تین سال تک قید یا بیس لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔‘‘
ایڈیشنل ڈائریکٹر نے مزید بتایا کہ معاملات کو شفاف بنانے کے لیے ایک سوشل میڈیا کونسل بنائی جا رہی ہے اور ڈیجیٹل رائٹس اتھارٹی میں صحافیوں کی نمائندگی بھی رکھی جائے گی۔ قبل ازیں یہ اختیارات دفعہ 37 کے تحت پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے پاس تھے۔
حکومت سوشل میڈیا کونسل اور ڈیجیٹل رائٹس اتھارٹی کے قیام کی بھی تجویز دے رہی ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ضابطۂ اخلاق کا پابند بنایا جائے گا، اور ڈیجیٹل رائٹس اتھارٹی صارفین کے ڈیٹا اور آن لائن حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے گی۔
فی الحال ملک کے چند بڑے شہروں میں سائبر کرائم سیل فعال ہیں۔ این سی سی آئی اے کا دعویٰ ہے کہ ضلعی سطح پر سائبر تھانے قائم کیے جائیں گے، جس سے شکایت درج کروانا آسان اور فوری ہوگا۔
ادارے کے مطابق، عوامی شعور بیدار کرنے کے لیے پیکا قانون کا اردو ترجمہ ویب سائٹ پر جاری کیا جا رہا ہے۔ اگلے مراحل میں قانون کو پنجابی، پشتو، سندھی اور بلوچی زبانوں میں بھی ترجمہ کر کے عام فہم بنایا جائے گا۔
ایک سائبر کرائم ماہر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پربتایا، ’’عوام کو معلوم ہی نہیں کہ ان کے حقوق کیا ہیں۔ جب تک قانون کو آسان زبان میں نہ سمجھایا جائے، اعتماد بحال نہیں ہو سکتا۔ اگر این سی سی آئی اے نے ایف آئی اے کی طرز پر روایتی پولیسنگ کی، تو عوام میں پذیرائی حاصل کرنا مشکل ہوگا۔‘‘
پاکستان کے ایک سینئر صحافی اور تجزیہ کار نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے نزدیک پیکا قانون دراصل ’’مارشل لا‘‘ ہے۔ ان کے مطابق، یہ قوانین نہ صرف صحافیوں بلکہ سیاست دانوں پر بھی لاگو ہوں گے، جیسا کہ فرحت اللہ بابر کو نوٹس دیے جانے کی مثال ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ: ’’شق 26 اتنی وسیع ہے کہ کسی کو بھی اس کے تحت نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ حکومت کو اس قانون کی شدت کا اندازہ تب ہوگا جب وہ خود اپوزیشن میں ہوں گے۔‘‘
پیکا ایکٹ 2016 میں متعارف ہوا تھا۔ 2023 اور اب 2025 میں اس میں اہم ترامیم کی گئی ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ترامیم عوامی مفاد میں کی گئی ہیں، مگر بعض حلقے انہیں آزادیِ اظہار پر قدغن کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
صحافیوں، ڈیجیٹل رائٹس کارکنوں اور سوشل میڈیا صارفین کا مؤقف ہے کہ پیکا ایکٹ کو مخالف آوازوں کو دبانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
این سی سی آئی اے کے ایک افسر نے تاہم ان تحفظات کے حوالے سے کہا، ”یہ غلط فہمی ہے کہ ہم اظہارِ رائے پر پابندی لگا رہے ہیں، دنیا کے دیگر ممالک میں بھی اسی نوعیت کے قوانین موجود ہیں۔ اصل ہدف ان افراد کو روکنا ہے جو یوٹیوب یا دیگر پلیٹ فارمز پر بغیر ثبوت کے لوگوں پر الزامات لگاتے ہیں یا جعلی خبریں پھیلاتے ہیں۔‘‘

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button