کالمزحیدر جاوید سید

تباہ شدہ سماج کے کھنڈرات سے اڑتی دھول …….حیدر جاوید سید

مقتولہ بچی کی والدہ دوسری شادی کی خواہش مند تھی لیکن محبوب پہلے خاوند کی بیٹی کو اپنانے پر آمادہ نہیں تھا

دو اڑھائی ہفتے قبل ایک نجی ٹی وی چینل کے ڈرامے میں ایک اداکار کو یہ کہتے سنا ’’ماما ضروری تو نہیں کہ ہر ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہو‘‘ تو بہت برا لگا ، برا تو بہت لگا لیکن اس بات نے یادوں کے در کھول دیئے بے شمار خبریں اور واقعات یاد آئے ان میں قریب ترین واقعہ لاہور کا تھا جہاں ایک خاتون نے دوسری شادی کے لئے پہلے خاوندے ہوئے دو بچوں (ایک بیٹی او ایک بیٹے) کو موت کے سپرد کردیا تھا۔
اب اسی سے ملتی جلتی خبر منڈی بہاء الدین کے حوالے سے سامنے آئی جہاں ا یک ماں نے اپنی سات آٹھ سالہ بیٹی کو ڈنڈے کے وار سے موت کے سپرد کر کے اس کی نعش کھیتوں میں پھینک دی اور پھر بیٹی کےلاپتہ ہونے کا شور برپا کردیا۔
پولیس اور اہل علاقہ کی تلاش کے دوران بچی کی نعش قریبی کھیلوں سے ملی ابتداً اس معصوم کے قتل کے ساتھ کئی کہانیاں جڑ گئیں پھر تفتیش کے اگلے مرحلہ میں یہ تلخ حقیقت سامنے آئی کہ مقتولہ بچی کی والدہ دوسری شادی کی خواہش مند تھی لیکن محبوب پہلے خاوند کی بیٹی کو اپنانے پر آمادہ نہیں تھا اس لئے گھر بسانے کے لئے ماں نے اس بیٹی کو قتل کردیا جس کے حصول کے لئے اس نے پہلے خاوند کے خلاف طویل مقدمہ بازی کی تھی۔
سات آٹھ برس کی معصوم بچی کے ماں کے ہاتھوں قتل کے اس واقعہ کی بدولت دو اڑھائی ہفتے قبل دیکھے گئے ایک قسط وار ڈرامے کی آخری قسط کا وہ جملہ ذہن و دل پر دستک دینے لگا کہ ’’ماما ضروری تو نہیں کہ ہر ماں کے قدموں کے نیچے جت ہو‘‘
منڈی بہاء الدین کے اس حالیہ واقعہ کے بعد سوشل میڈیا پر مجاہدین نے نئی بحث چھیڑ دی ہے مختلف الخیال جتھے خم ٹھونک کر میدان میں ہیں اور کشتوں کے پشتے لگائے جارہے ہیں۔ ہمارا دیسی سوشل میڈیا لندن والے ہائیڈ پارک سے بھی وکھری چیز ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ’’بہت آگے کی چیز ہے‘‘۔ اس لئے حدودقیود وغیرہ کے چکر میں کوئی نہیں پڑتا ایسی ایسی چنگاریاں بھڑکنے کی منزل پر پہنچتی ہیں کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے۔
دیندار اس ساری صورتحال کا ذمہ دار بے دینی کو قرار دیتے ہیں اور لبرلز کی اپنی دنیا ہے ان میں سے چند ایک سنجیدگی اور دلیل کو اہمیت دیتے ہیں اکثریت مادر پدرآزاد ہے۔
دیسی ملحدین کے گورو "گھنٹال” اویس اقبال ترویج الحاد کے لئے چندہ مہم پر ہیں پھر بھی وہ کچھ وقت نکال کر چول مارنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ان کی ایک تازہ چول کا دو دن سے سوشل میڈیا پر بڑا شہرہ ہے۔ خیرچھوڑیئے اویس اقبال اور ان کی چولیں ہمارا موضوع نہیں۔
بالائی سطور میں لاہور اور منڈی بہاء الدین کے جن دو واقعات (مائوں کے ہاتھوں اولاد کا قتل) کا ذکر کیا ہے ہمارے سماج سدھاروں اور اصلاح پسندوں کو لگی لپیٹ کے بغیر ان پر مکالمہ اٹھانا چاہیے البتہ یہ ضروری ہے کہ مکالمہ سوشل میڈیا کی طرح بناوٹی اور مادر پدر آزاد ہرگز نہ ہو۔ یہ دیکھا جانا ازبس ضروری ہے کہ اِکادُکا سہی ایسے واقعات کیوں پیش آتے ہیں لگے ہاتھوں ملک میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح پر بھی بات ہونی چاہیے آخر کیوں اس کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے؟
عدالتوں میں دائر خلع کے مقدمات میں فرقین ، دعویٰ اور جواب دعویٰ میں جو الزامات ایک دوسرے پر لگاتے ہیں ان کا نفسیاتی تجزیہ بہت ضروری ہے۔
کیا عمومی مسائل کے منفی اثرات ازدواجی زندگیوں میں زہر گھول رہے ہیں۔ مشترکہ خاندانی نظام ہمارے عصر کی ضرورتوں اور بالخصوص نئے جوڑوں کی امنگوں سے متصادم ہے یا پھر رشتے طے کرتے وقت نئے جوڑے اوران کے خاندانوں میں ذہنی ہم آہنگی کا فقدان بھی ایک وجہ ہے؟
میں ان سطور میں عشروں سے یہ عرض کرتا آرہا ہوں کہ نئے جوڑے کا نفسیاتی اور طبی معائنہ ازحد ضروری ہے۔ میرے دیندار دوست میری اس رائے کو اسلامی تعلیمات اور سماجی اقدار کے منافی قرار دیتے ہیں۔ میں ہمیشہ ان سے سوال کرتا ہوں کہ اسلام اور سماجی اقدار ہر دو کہاں ذہنی ہم آہنگی پر معترض ہیں یا یہ کہ کیوں ہر نئے جوڑے کا نفسیاتی اور طبی معائنہ نہیں ہونا چاہیے؟
دیندار دوست سوال کا جواب نہیں دیتے بس یہ پھبتی کھینچ مارتے ہیں کہ حضرت نوحؑ کا بیٹا بھی گمرا ہوگیا تھا۔
اس کےباوجود یہی عرض کروں گا نئے جوڑے کے نکاح نامے کے ساتھ نفسیاتی اور طبی معائنہ کے نتائج لف ہونے چاہئیں۔
ہمیں اپنے نصاب تعلیم، سماجی رویوں، ذات برادری اور عقیدوں سے کشید کردہ ان ’’اصولوں‘‘ کو بھی ازسرنو دیکھنا ہوگا جو حقیقت سے زیادہ جہالت اور تکبر سے عبارت ہیں۔
ابھی چند دن قبل اسلام آباد میں ایک سترہ سالہ طالبہ ثنا یوسف کا سفاکانہ قتل ہوا۔ یہ طالبہ اپنے ٹک ٹاک اکائونٹ کی بدولت سوشل میڈیا پر خاصی معروف تھیں چترال سے تعلق رکھنے والی سترہ برس کی اس طالبہ کا قاتل بھی ایک اٹھارہ انیس برس کا ٹک ٹاکر ہی ہے۔
اس قتل کو لے کر ہمارے کچھ جاہل سماج پرستوں نے جنہیں اسلام پسند ہونے کا زعم بھی ہے جو کچھ لکھا وہ اتنا غلیظ ہے کہ حوالہ دینا بھی عذاب لگ رہا ہے ایک معروف اسلام پسند سوشل میڈیائی ادیب نے اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ پر لکھا ’’مکھن کھلا اور دہلیز پر پڑا ہوگا تو لوگ منہ ماریں گے ہی‘‘۔ ان ’’حضرت‘‘ نے اس سے آگے کی چند باتیں بھی لکھیں جن سے عمومی تاثر یہ ابھرا کے مقتولہ کے گھر میں سی سی ٹی وی کا جو نظام انسٹال تھا اس کا ریکارڈ روم ان حضرت کے گھر پر انسال تھا اس لئے تو انہوں نے غلیظ ترین دعوے ٹھوک ڈالے۔
ہم جس سماج میں جی بس رہے ہیں یہاں گھر سے روزگار اور تعلیم کے حصول کے لئے نکلنے والی بچیوں کے بارے میں جوشیطانی جملے اچھالے جاتے ہیں وہ کم و بیش ہم سب نے سن رکھے ہیں۔
افسوس یہ ہے کہ غلاظت سے بھرے سوقیانہ جملے اچھالنے والوں کا منہ بند کرنے کی جرات بہت کم لوگ کرتے ہیں۔
اسلام آباد میں ہفتہ بھر ادھر قتل ہونے و الی سترہ سالہ طالبہ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر مختلف روایات اور خصوصاً پشتون روایات کے بزعم خود محافظوں نے جو کچھ لکھا اس پر افسوس اس لئے نہیں ہوا کہ آج کا پشتون سماج نصف صدی قبل کا ترقی پسند پشتون سماج نہیں ہے ہمہ قسم کی شدت پسندی اور بارود گیری نے اسے برباد کرکے رکھ دیا ہے یہی حال دیگر قومیتوں کے سماجوں کا بھی ہے۔
اب ہر شخص طوفان بدتمیزی کو بہادری اور غیرت کی علامت سمجھتا ہی نہیں اسے اپنانے پر فخر محسوس کرتا ہے ۔ بات تلخ ہے لیکن عرض کئے بنا رہا نہیں جاسکتا کہ جس ملک میں سکہ بند کال گرلز اور گوشت و بوتل کے سپلائر سینئر تجزیہ نگار کے طور پر جمہوریت ، تبدیلی اور تبدیلی سے اسلامی ریاست کشید کرنے کے طریقے سمجھانے کے ساتھ سماجی انقلاب کے بھاشن دے کر لاکھوں ڈالر ماہانہ کماتے ہوں اس سماج کے چار اور یہی کچھ ہوتاہے جو ہمیں اور آپ کو دیکھائی دے رہا ہے۔
اس قصے کو رہنے دیجئے ہم پھر اصل موضوع کی طرف پلٹتے ہیں۔ ہمارے اہل دانش کو اپنے سماجی کجوں کا تجزیہ کرنا ہوگا۔ مذہب جدیدیت یا کسی اور چیز پر کامل بربادی کی ذمہ داری ڈالنے کی بجائے حقیقت پسندانہ مشاہدات اور تجزیہ سے لوگوں کی رہنمائی کی جانی چاہیے۔
سیاسی اختلافات نے جو گندگی بوئی اور جس قسم کی نسلیں مارکیٹ میں لاپھینکی ہیں اس پر دو آراء ہرگز نہیں لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ جس خطے کا سماج اور اقدار پچھلی کئی ہزاریوں کی تاریخ میں روشن فکری کے طور پر یادگار ہیں اس خطے میں سماجی و اخلاقی بربادی کیسے کاشت ہوپائی اس سوال کا جواب تلاش کرنا بہت ضروری ہے۔
دیکھنا سمجھنا ہوگاکہ اذہان میں گندگی کیوں بھری ہے ہر چیز کے منفی پہلو کیوں سامنے رکھتے ہیں کیا مثبت پہلو نہیں ہوتے ؟ سماج کے ایک فرد اور طالب علم کی حیثیت سے مجھے امید ہے کہ اہل دانش ان معروضات پر غور بھی کریں گے ا ور مسائل کا حل بھی تلاش کریں گے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button