پاکستاناہم خبریں

بلوچستان کے قبائلی علاقے میں غیرت کے نام پر دوہرا قتل، 11 ملزمان گرفتار، قبائلی سردار جسمانی ریمانڈ پر، عدالت و حکومت کا سخت نوٹس

11 ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے، جن میں قبائلی سردار شیر باز ساتکزئی بھی شامل ہیں

سید عاطف ندیم-پاکستان

بلوچستان کے قبائلی علاقے مارگٹ کے نواحی مقام سنجیدی ڈیگاری میں غیرت کے نام پر ایک خاتون اور مرد کو قتل کرنے کے لرزہ خیز واقعے پر ملک بھر میں شدید ردِعمل سامنے آ رہا ہے۔ پولیس نے کاروکاری کے الزام میں دو افراد کے بہیمانہ قتل میں ملوث ہونے پر 11 ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے، جن میں قبائلی سردار شیر باز ساتکزئی بھی شامل ہیں۔ پولیس نے ملزم کو پیر کے روز انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا، جہاں عدالت نے دو روزہ جسمانی ریمانڈ کی منظوری دے دی۔

واقعے کی تفصیلات

پولیس کے مطابق یہ افسوسناک واقعہ 4 جون 2025 کو پیش آیا تھا، تاہم قتل کی ویڈیو رواں ہفتے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد واقعے کی تفصیلات منظر عام پر آئیں۔ وائرل ویڈیوز میں دکھایا گیا کہ خاتون اور مرد کو قبائلی جرگے میں ’کاروکاری‘ قرار دے کر گولیاں مار کر قتل کیا گیا۔ پولیس کی تحقیقات کے مطابق یہ ویڈیوز قبائلی فیصلے پر عمل درآمد کے دوران ریکارڈ کی گئیں۔

قتل کا پس منظر اور کارروائی

پولیس کی ابتدائی ایف آئی آر کے مطابق، مقتولین کو گاڑیوں میں بٹھا کر سردار کے پاس لایا گیا جہاں ایک جرگے کے دوران قتل کا فیصلہ سنایا گیا۔ فیصلے پر عمل کرتے ہوئے انہیں فائرنگ کر کے قتل کیا گیا۔

  • خاتون کی شناخت بانو بی بی کے نام سے ہوئی ہے جن کی عمر 40 سال تھی اور ان کا تعلق ساتکزئی قبیلے سے تھا۔

  • مرد کی شناخت احسان اللہ سمالانی کے طور پر ہوئی ہے جن کا تعلق سمالانی قبیلے سے تھا۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق بانو بی بی کو سات اور احسان اللہ کو نو گولیاں ماری گئیں۔ دونوں کو الگ الگ قبرستانوں میں دفنایا گیا تھا، تاہم عدالت کے حکم پر قبرکشائی کر کے پوسٹ مارٹم کیا گیا تاکہ فرانزک شواہد حاصل کیے جا سکیں۔

قبائلی عناصر، خاندانی افراد ملوث

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ خاتون کا بھائی جلال ساتکزئی مرکزی ملزم ہے، جو دیگر قریبی رشتہ داروں کے ہمراہ واردات میں ملوث ہے۔ پولیس کے مطابق جلال اور اس کے ساتھی فرار ہو چکے ہیں، جن کی تلاش میں چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ مقدمے میں قتل، دہشتگردی، اور عوام میں خوف پھیلانے کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

عدالت اور حکومتی ردِعمل

  • چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس روزی خان بڑیچ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ اور آئی جی پولیس بلوچستان کو عدالت میں طلب کر لیا ہے۔

  • وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے ایک نیوز کانفرنس میں واقعے کو ناقابل برداشت اور انسانیت کی تذلیل قرار دیتے ہوئے کہا کہ:

"ریاست کی عملداری کو چیلنج کرنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا، کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔”

وزیراعلیٰ نے اس واقعے کو حکومت بلوچستان کے لیے "ٹیسٹ کیس” قرار دیتے ہوئے کہا کہ تمام ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

مریم نواز شریف کا سخت ردعمل

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے بھی واقعے پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا:

"بلوچستان میں غیرت کے نام پر ایک بیٹی کا قتل انسانیت کے ضمیر پر حملہ ہے، یہ ظلم ناقابلِ معافی ہے۔ ریاستی قانون سے بالاتر کوئی رسم، روایت یا سوچ قابل قبول نہیں۔ قاتلوں کو قانون کے شکنجے میں لا کر قرار واقعی سزا دی جائے۔”

سماجی اور جغرافیائی حالات

مارگٹ، سنجیدی، ڈیگاری اور ملحقہ علاقے نہ صرف قبائلی نظام کے زیرِ اثر ہیں بلکہ سکیورٹی کے لحاظ سے بھی حساس اور دشوار گزار علاقے سمجھے جاتے ہیں۔ یہاں براہوی و بلوچ قبائل کی اکثریت ہے اور موبائل نیٹ ورک کی عدم دستیابی کے باعث مواصلاتی نظام انتہائی کمزور ہے۔
یہ علاقہ پہلے لیویز فورس کے تحت تھا، تاہم حالیہ برسوں میں اسے پولیس کے دائرہ اختیار میں لایا گیا ہے، مگر پولیس چوکیوں اور گشت کا فقدان اب بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

انصاف کی جنگ اور ریاستی وقار

ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند کا کہنا ہے کہ واقعے کی مکمل اور شفاف تفتیش جاری ہے، اور کسی بھی قسم کا قبائلی یا سیاسی دباؤ قبول نہیں کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا:

"یہ واقعہ حکومت بلوچستان کے لیے ایک امتحان ہے اور انصاف کی فراہمی کو ہر صورت یقینی بنایا جائے گا۔”

تجزیہ: قانون بمقابلہ قبائلی روایات

یہ واقعہ نہ صرف قانون کی عملداری کو چیلنج کرتا ہے بلکہ غیرت کے نام پر قتل جیسے سماجی المیوں کے خلاف ریاستی عزم کی بھی آزمائش ہے۔ اگر اس مقدمے میں مثالی انصاف فراہم کیا گیا تو یہ مستقبل میں قبائلی روایات کے نام پر ظلم روکنے میں سنگِ میل ثابت ہو سکتا ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button