اہم خبریںپاکستانتازہ ترین

سینیٹ میں سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل غیرقانونی قرار دینے کے فیصلے کے خلاف قرارداد منظور

سوموار کو سینٹ کے اجلاس میں سینیٹر دلاور خان نے فوجی عدالتوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قرارداد پیش کی۔

پاکستان کے ایوان بالا سینیٹ نے عدالت عظمیٰ کی جانب سے سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کے فیصلے کے خلاف قرار داد کثرت رائے سے منظور کر لی ہے۔
سوموار کو سینٹ کے اجلاس میں سینیٹر دلاور خان نے فوجی عدالتوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قرارداد پیش کی۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف عدالتی کارروائیاں فوجی عدالتوں میں ہونی چاہیے۔
قرارداد میں سپریم کورٹ کے فوجی عدالتوں کے خلاف فیصلے کو پارلیمنٹ کی قانون سازی کے خلاف قرار دے دیا گیا ہے۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ سویلین کے عسکری تنصیبات پر حملوں کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں ہوتا ہے اور اس ضمن میں آرمی ایکٹ میں ترمیم 1967 سے موجود ہے۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ دہشت گردی کے فروغ کا سبب بنے گا۔
قرارداد میں مزید کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے بینچ کا فیصلہ اتفاق رائے سے نہیں تھا۔
’فیصلے میں قانونی ابہام ہے اس لیے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے پارلیمنٹ کے اختیارات میں مداخلت کا تاثر ملا ہے۔‘ سینیٹ نے قرارداد کثرت رائے سے منظور کر لی۔
سینیٹر رضا ربانی اور سینیٹر مشتاق احمد خان نے ایوان بالا میں فوجی عدالتوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف پیش کردہ قرارداد کی مخالفت کی۔
دونوں سینیٹرز نے اس معاملے پر ایوان بالا میں بات کرنا چاہی لیکن چیئرمین سینیٹ نے انہیں اجازت نہیں دی۔
اجلاس کل صبح ساڑے دس بجے تک کیلیے ملتوی کردیا۔
خیال رہے کہ 23 اکتوبر کر سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے 9 مئی کے تمام ملزمان کا ٹرائل عام عدالتوں میں کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔
فیصلہ جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں پانچ رکن لارجر بینچ نے یہ فیصلہ سنایا تھا۔
بینچ میں جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی شامل تھے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button