پاکستان پریس ریلیز

پاکستان کی تحریکِ آزادی میں احمدی جماعت کا اہم کردار

احمدیہ جماعت کے دوسرے خلیفہ، مرزا بشیر الدین محمود احمد، نے 1930 اور 1940 کی دہائیوں میں مسلمانوں کو علیحدہ وطن کے حق میں سیاسی شعور اجاگر کرنے اور مالی امداد فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

رپورٹ سید عاطف ندیم وائس آف جرمنی اردو نیوز

قدرت نے مملکت خداداد کے قیام کے لیے بہترین صلاحیتوں اور عزم و استقلال سے مزین کئی شخصیات برصغیر کو عطا کیں۔ برصغیر میں انگریزوں اور کانگریس کے خلاف مسلمانوں کی کامیاب تحریک، جسے تاریخ میں’’ تحریکِ پاکستان‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، کئی پہلوؤں سے 20ویں صدی کی ایک منفرد اور ممتاز تحریک ہے۔ اس میں مردوں کی طرح خواتین کا کردار بھی خاصا نمایاں رہا ہے، جنھوں نےاپنی زندگیاں جدوجہد پاکستان کے لیے وقف کیں اور سماجی پابندیوں کا سامناکرتے ہوئے تحریک پاکستان میں ایک نئی روح پھونکی۔
پاکستان کے قیام کے لیے جدوجہد کرنے والے رہنماؤں کی فہرست میں بے شمار ایسی شخصیات شامل ہیں جنہوں نے مختلف میدانوں میں اپنی خدمات پیش کیں، اور ان میں سے کچھ کا تعلق احمدی (قادیانی) برادری سے تھا۔ ان رہنماؤں نے نہ صرف سیاسی، قانونی، سفارتی، بلکہ فکری اور تنظیمی میدانوں میں بھی اہم کردار ادا کیا، جو آج بھی تاریخ کے صفحات میں زندہ ہیں۔ اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ مختلف وجوہات کی بنا پر ان کا ذکر کم ہوتا جا رہا ہے، مگر تاریخی دستاویزات اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کے ساتھ ان رہنماؤں کے تعلقات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ پاکستان کا قیام ایک ہمہ گیر قومی جدوجہد تھی جس میں مختلف قومیتوں، مسالک، اور مکاتبِ فکر کے افراد نے حصہ لیا۔

مولانا محمد علی جوہر اور احمدی برادری کا فکری تعاون

تحریکِ خلافت اور مسلم سیاسی بیداری کے رہنما، مولانا محمد علی جوہر، خود احمدی نہیں تھے، لیکن ان کا احمدی رہنماؤں کے ساتھ قریبی رابطہ تھا، جس نے تحریکِ پاکستان کے سیاسی ماحول کو جِلا بخشی۔ احمدی برادری نے مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کے قیام میں اہم کردار ادا کیا اور قومی بیداری کے مختلف منصوبوں میں مالی اور فکری معاونت فراہم کی۔ چوہدری فتح محمد سیال اور دیگر احمدی دانشوروں کی مدد سے مسلمانوں کے سیاسی اور تعلیمی محاذ پر ایک نئی لہر پیدا ہوئی۔

چوہدری فتح محمد سیال — سیاسی اور سفارتی خدمات

چوہدری فتح محمد سیال احمدی کمیونٹی کے ایک اہم رہنما تھے جنہوں نے برطانوی حکومت کے سامنے مسلمانوں کے حقوق کا مؤقف پیش کیا۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاسوں میں حصہ لیتے اور مسلم مطالبات کی بھرپور وکالت کرتے۔ ان کی سفارتی خدمات نے پاکستان کے قیام میں ایک اہم کردار ادا کیا، خاص طور پر یورپ میں پاکستان کے مؤقف کو اجاگر کرنے میں۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے ان کی خدمات کو سراہا، اور قیامِ پاکستان کے بعد انہیں مشاورتی ذمہ داریوں کا موقع بھی دیا۔

سر محمد ظفراللہ خان — پاکستان کے پہلے وزیرِ خارجہ

سر محمد ظفراللہ خان، جو تحریکِ پاکستان میں اہم قانونی مشیر تھے، نے نہ صرف آل انڈیا مسلم لیگ کے مشیر کے طور پر مسلمانوں کے حقوق کی وکالت کی بلکہ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان کے پہلے وزیرِ خارجہ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ ان کی اقوامِ متحدہ میں کی جانے والی تقاریر نے پاکستان کا مقدمہ عالمی سطح پر پیش کیا اور فلسطین، کشمیر، اور مسلم ممالک کے حقِ خود ارادیت کے موضوعات پر ان کے دلائل آج بھی تاریخی اہمیت رکھتے ہیں۔ 1960 کی دہائی میں وہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف (International Court of Justice) کے صدر بھی منتخب ہوئے، جو کسی پاکستانی کے لیے ایک بڑا اعزاز تھا۔

مرزا بشیر الدین محمود احمد — فکری و تنظیمی کردار

احمدیہ جماعت کے دوسرے خلیفہ، مرزا بشیر الدین محمود احمد، نے 1930 اور 1940 کی دہائیوں میں مسلمانوں کو علیحدہ وطن کے حق میں سیاسی شعور اجاگر کرنے اور مالی امداد فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد، انہوں نے اپنے پیروکاروں کو مہاجرین کی خدمت کے لیے آگے آنے کی ہدایت دی، اور ربوہ (موجودہ چناب نگر) میں مہاجرین کے لیے ریلیف کیمپ قائم کیے۔ ان کا نظریہ تھا کہ پاکستان کا قیام مسلمانوں کی تقدیر میں تبدیلی کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا، اور اسی مقصد کے تحت انہوں نے مسلم لیگ کے رہنماؤں سے قریبی تعلق رکھا اور انہیں عملی تجاویز پیش کیں۔

قائداعظم کا احمدی برادری کے بارے میں رویہ

قائداعظم محمد علی جناحؒ نے احمدی برادری کے کردار کو 1944ء میں ایک ملاقات کے دوران سراہا، اور کہا:
"ہر وہ شخص جو مسلمانوں کے مفاد اور ان کی سیاسی خود مختاری کے لیے کام کرتا ہے، وہ ہماری صف میں ہے۔”

یہ بیان اُس دور کے اخبارات اور مسلم لیگ کے اجلاسوں میں درج ہے، اور اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قائداعظم نے مذہبی اختلافات کے باوجود سیاسی اتحاد اور مسلمانوں کے مفاد پر زور دیا تھا۔

قیامِ پاکستان کے بعد احمدی برادری کا کردار

پاکستان کے قیام کے بعد، مختلف سیاسی اور مذہبی تنازعات کی وجہ سے احمدی برادری کے کردار پر بحث کا رخ تبدیل ہوگیا۔ 1953ء کے فسادات اور 1974ء کی آئینی ترمیم نے احمدیوں کو پاکستان کی مذہبی و سیاسی تاریخ میں ایک الگ مقام پر لا کھڑا کیا۔ باوجود اس کے، تاریخی ریکارڈ اب بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ تحریکِ پاکستان کے دوران احمدی رہنماؤں کی محنت، قانون دانی، سفارت اور مالی قربانیاں ناقابلِ انکار ہیں۔

احمدی خواتین کی سماجی خدمات

پاکستان کے قیام کی تحریک میں احمدی خواتین کا ایک اور اہم کردار سماجی خدمات میں تھا۔ جب پاکستان کے قیام کے قریب آزادی کے متوقع حالات میں بہت ساری خواتین اور بچے مہاجر ہو کر پاکستان کے مختلف علاقوں میں پناہ گزین ہونے آئے، تو احمدی خواتین نے ان کی مدد کے لیے مختلف ریلیف کیمپ قائم کیے۔ انہوں نے نہ صرف ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کی بلکہ مہاجرین کی طبی امداد اور ذہنی سکون کے لیے بھی مختلف پروگرامز شروع کیے۔

احمدی خواتین نے اپنے چھوٹے چھوٹے پروگرامز کے ذریعے ان خواتین اور بچوں کی حوصلہ افزائی کی، جنہیں پاکستان کی تشکیل کے بعد کے حالات میں مختلف مشکلات کا سامنا تھا۔ ان کی یہ امدادی سرگرمیاں نہ صرف تحریکِ پاکستان کے دوران بلکہ بعد میں بھی قابلِ ذکر رہیں۔

احمدی خواتین کی قائداعظم محمد علی جناحؒ کے ساتھ وابستگی

قائداعظم محمد علی جناحؒ نے ہمیشہ پاکستانی خواتین کے کردار کی اہمیت کو تسلیم کیا اور ان کی جدوجہد کی حمایت کی۔ احمدی خواتین نے قائداعظم کے پیغامات کو اپنی زندگیوں میں نافذ کیا اور ان کی قیادت میں پاکستان کے لیے کام کیا۔ قائداعظم کی رہنمائی میں، احمدی خواتین نے پاکستان کے لیے نہ صرف سیاسی، بلکہ فکری طور پر بھی کام کیا اور ان کی قربانیوں کی وجہ سے پاکستان کی تاریخ میں ایک الگ مقام حاصل کیا۔

قائداعظم نے خواتین کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا:
"پاکستان کا خواب صرف مردوں کے لیے نہیں تھا، بلکہ عورتیں بھی اس میں برابر کی شریک تھیں۔”

اس بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ احمدی خواتین کی تحریکِ پاکستان میں شراکت داری اور قائداعظم کی ان کے ساتھ ہمدردی ایک اہم جزو تھا۔

احمدی خواتین کا تنظیمی اور امدادی کردار

احمدی خواتین نے اپنے مخصوص مذہبی اور سماجی تنظیموں کے ذریعے پاکستان کے قیام میں فعال حصہ لیا۔ "آل انڈیا مسلم لیگ” اور "احمدیہ جماعت” کی خواتین تنظیموں نے ایک مضبوط نیٹ ورک تشکیل دیا جس میں وہ نہ صرف تحریکِ پاکستان کے لیے سیاسی و سماجی میدانوں میں کام کر رہی تھیں بلکہ امدادی خدمات میں بھی پیش پیش تھیں۔

ان خواتین نے اپنے گھریلو ماحول سے باہر آ کر سیاسی اجتماعات میں شرکت کی اور ان کے خیال میں یہ نہ صرف ان کی قومی ذمہ داری تھی بلکہ اسلامی تحریک کے لیے بھی ضروری تھا کہ وہ پاکستان کے قیام میں اپنے تمام وسائل اور توانائیاں لگائیں۔

آزادی کی جدوجہد کے بعد احمدی خواتین کی خدمات

پاکستان کے قیام کے بعد احمدی خواتین نے نہ صرف ملک کے معاشی اور سماجی ترقی کے لیے کام کیا بلکہ انہوں نے پاکستان میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد میں بھی حصہ لیا۔ وہ تعلیمی اداروں میں تدریس کے شعبے میں شامل ہوئیں اور خواتین کے لیے فلاحی منصوبوں کی بنیاد رکھی۔

احمدی خواتین کی قربانیاں اور کردار کی اہمیت

پاکستان کے قیام کی تحریک میں احمدی خواتین کا کردار کسی بھی طرح سے کم نہیں تھا۔ انہوں نے آزادی کی جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا، تعلیمی، سماجی، اور امدادی میدانوں میں کام کیا، اور پاکستان کے قیام کے لیے اپنی جان و مال کی قربانیاں دیں۔ اگرچہ آج ان کا ذکر کم کیا جاتا ہے، مگر ان کی خدمات تاریخ کا حصہ ہیں اور ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ ان خواتین کی قربانیاں اور جدوجہد اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان کی آزادی کی جدوجہد میں تمام اقلیتی اور مختلف مسالک کے افراد کا یکساں کردار تھا، جنہوں نے اپنے قومی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستان کی تشکیل میں حصہ لیا۔

تاریخ کا انصاف اور مکمل منظرنامہ

تاریخ کا انصاف یہ ہے کہ ہر اُس شخص کو یاد رکھا جائے جس نے پاکستان کے خواب کو حقیقت بنانے میں کردار ادا کیا، چاہے اس کا تعلق کسی بھی فقہی یا مسلکی پس منظر سے ہو۔ سر محمد ظفراللہ خان، چوہدری فتح محمد سیال، مرزا بشیر الدین محمود احمد اور دیگر احمدی رہنماؤں کی خدمات اس بات کی یاد دہانی ہیں کہ پاکستان ایک مشترکہ جدوجہد کا نتیجہ تھا، جس میں علم، قانون، قربانی اور ایمان سب شامل تھے۔ تحریکِ پاکستان میں مختلف اقلیتی گروپوں کے کردار کو نظرانداز کیے بغیر اس کی مکمل تاریخ کو سمجھنا ضروری ہے، تاکہ اس عظیم تحریک کے تمام حصہ داروں کو ان کے جائز مقام پر تسلیم کیا جا سکے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button