(سید عاطف ندیم، لاہور): پاکستان میں ٹیکس جمع کرنے کے ذمہ دار اداے فیڈرل بورڈ آف ریونییو (ایف بی آر) نے بیگیج رولز 2006 میں مجوزہ ترامیم کے نوٹیفیکشن کو واپس لیتے ہوئے نئی ترامیم تک پہلے سے موجود بیگیج رولز پر عمل درآمد کی ہدایت کی ہے۔
لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ پاکستان آنے اور بیرون ممالک جانے والے پاکستانی شہری اپنے ساتھ کتنے موبائل فون لے جا سکتے ہیں؟
نیز کیا ایف بی آر بیگیج رولز یا اُن میں ترامیم صرف سمندر پار پاکستانیوں کے لیے ہیں، یا بیرون ملک سے آنے والے تمام پاکستانی شہری اس میں شامل ہوں گے؟
ان سولات کا جواب جاننے کے لیےوائس آف جرمنی اردو نیوز نے ایف بی آر کے بیگیج رولز 2006 کا جائزہ لیا جس کے مطابق بیگیج رولز بیرون ملک سے پاکستان آنے والے تمام شہریوں کے لیے ہیں جن میں سمندر پار پاکستانی یا وہ پاکستانی جو کچھ دنوں یا عرصہ کے لیے پاکستان سے باہر جاتے ہیں شامل ہیں۔
بیرون ملک سے کتنے موبائل اپنے ہمراہ لائے جا سکتے ہیں؟
دلچسپ امر یہ ہے کہ ایف بی آر کے بیگیج رولز 2006 کے مطابق بھی بیرون ملک سے آنے والے شہری اپنے استعمال کے موبائل فون کے علاوہ ایک اور موبائل اپنے ہمراہ لا سکتے ہیں، تاہم شہریوں کو ڈیوٹی کی ادائیگی کے بعد مزید فون لے جانے کی بھی اجازت ہے۔ لیکن ایف بی آر کے مشاہدے کے مطابق بیرون ملک سے آنے والے شہریوں کی جانب سے ذاتی استعمال کے نام پر متعدد موبائل فونز لائے جانا ایک معمول ہے اور پھر اُن پر مکمل ٹیکس بھی ادا نہیں کیا جا رہا۔
اس تناظر میں ایف بی آر نے بیگیج رولز میں ترامیم لانے کا فیصلہ کیا ہے اور ٹیکسز کی ادائیگی کے باوجود ایک سے زائد موبائل کی کلیئرنس روکنے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا جسے بعد ازاں واپس لے لیا۔ اب ان ترامیم پر دوبارہ کام کیا جا رہا ہے۔
ایف بی آر کے بیگیج رولز 2006 کے مطابق ذاتی موبائل فون سے مراد شہریوں کے پاس ایکٹیو موبائل فون ہیں جسے وہ اپنے ہمراہ پاکستان سے لا رہے ہیں یا اپنے ساتھ واپس پاکستان لے جا رہے ہیں۔ اگر کوئی شہری پاکستان سے ایک موبائل فون لے کر گیا اور واپسی پر اُس کے پاس ایک کے بجائے تین تک ایکٹیو موبائل فون ہیں تو وہ اُس کے ذاتی موبائل فون ہی کہلائیں گے۔
فیڈرل بورڈ آف ریوینیو کے بیگیج رولز 2006 کے مطابق شہریوں کے ذاتی استعمال میں ٹیکس اور ڈیوٹیز سے استنثیٰ رکھنے والی اشیا میں ایک عدد لیپ ٹاپ بھی شامل ہے۔ ایک سے زائد لیپ ٹاپ پر اضافی ڈیوٹیز وصول کی جاتی ہیں جن کے بعد اُن کی کلیئرنس ہوتی ہے۔
ایف بی آر کے بیگیج رولز میں ترامیم کے معاملے پر ماہرین کا کہنا ہے کہ اُنہیں ان رولز میں مجوزہ ترامیم میں کوئی منطق نظر نہیں آئی۔
اُنہوں نے بتایا کہ شہریوں کی جانب سے بیرون ملک سے موبائل فون لانے میں کوئی زیادہ مسائل نہیں ہیں، کیونکہ کوئی بھی موبائل پی ٹی اے ٹیکس اور دیگر ڈیوٹیز کے بغیر پاکستان میں لمبے عرصے تک نہیں چل سکتا۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر ایسے قانون بنا بھی لیے جاتے ہیں تو اُن پر عمل در آمد مشکل ہوگا کیونکہ ذاتی موبائل کی تعریف کرنا ایک پیچیدہ معاملہ ہوتا ہے۔ ایف بی آر کی جانب سے پہلے ترامیم کا مسودہ پیش کرنا اور پھر اُسے واپس لے لینا خود ایف بی آر کی فیصلہ سازی پر سنجیدہ سوالات اٹھاتا ہے۔
ماہرین نے ایف بی آر کے بیگیج رولز 2006 اور پھر اُن میں ترامیم کے حوالے سے بتایا کہ اگر پہلے سے ہی قانونی طور پر ایک ہی موبائل لانے کی اجازت ہے تو اُس پر مزید کیا ترامیم کرنا چاہ رہے ہیں؟.اُن کا کہنا تھا کہ اگر ایف بی آر کی جانب سے ایسے فیصلے لیے بھی جاتے ہیں تو بیرون ممالک سے موبائل فون لانے کے غیر قانونی راستے کھل جائیں گے اور مسئلے کا سدباب نہیں ہو سکے گا۔