یورپ

جرمنی میں سیاسی محرکات کے سبب جرائم میں تیزی سے اضافہ

جرمنی میں تازہ اعداد و شمار نسل پرستانہ، سامیت دشمنی اور اسلاموفوبک جرائم میں 'ڈرامائی‘ اضافے کی نشان دہی کرتے ہیں۔

(جواد احمد-جرمنی): نئے اعداد و شمار سے پتا چلا ہے کہ جرمنی میں نسل پرستانہ، سامیت دشمنی اور اسلاموفوبک جرائم میں ’ڈرامائی‘ اضافہ ہوا ہے۔ ان دنوں میونخ میں تین افراد کے خلاف مبینہ طور پر روس کے لیے جاسوسی کے الزام میں مقدمہ چل رہا ہے۔

جرمنی  میں انسداد نسل پرستی کی نگران حکومتی کمشنر نتالی پاولک نے ملک میں نسل پرستی، سامیت دشمنی اور اسلاموفوبک جرائم میں ” ڈرامائی‘‘ اضافے کی مذمت کی ہے۔

بیس مئی منگل کے روز جاری کردہ تازہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، جرمنی میں 2024ء میں اس سے ایک سال پہلے کے مقابلے میں ایسے جرائم کی تعداد میں 40 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جن کا ارتکاب سیاسی محرکات کے سبب کیا گیا۔

‘انتہا پسند’ اے ایف ڈی پر پابندی لگ سکتی ہے؟

جرمنی میں 2024ء کے دوران ہونے والے مجموعی جرائم میں سے 42,788 دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں کی طرف سے کیے گئے، جو سیاسی محرکات والے جرائم کی مجموعی تعداد کا 50 فیصد بنتے ہیں۔

وفاقی جرمن وزیر داخلہ آلیکسانڈر ڈوبرنٹ
وفاقی جرمن وزیر داخلہ آلیکسانڈر ڈوبرنٹ نے دائیں بازو کی انتہا پسندی میں اضافے کی مذمت کی ہےتصویر: Annegret Hilse/REUTERS

وفاقی جرمن وزیر داخلہ آلیکسانڈر ڈوبرنٹ نے ایک بیان میں کہا کہ مذکورہ اعداد و شمار میں ”انتہائی‘‘ اضافہ ”ہمارے معاشرے میں پولرائزیشن‘‘ یا متضاد سمتوں میں تقسیم اور سامیت دشمنی میں عروج کا نتیجہ ہے۔

حکومتی کمشنر برائے انسداد  نسل پرستی تالی پاولک نے جرمنی میں نسل پرستی، سامیت دشمنی اور اسلاموفوبک جرائم میں ”ڈرامائی‘‘ اضافے کی مذمت کرتے ہوئے کہا، ”ہٹلر سلیوٹ نفرت کو ہوا دیتا ہے۔ بھڑکاتا ہے۔ چہرے پر براہ راست مکا مارنا ہمارے ملک میں ہر 12 منٹ بعد انتہائی دائیں بازو کے اس نوعیت کے ایک نئے جرم کی وجہ بنتا ہے۔‘‘

نیشنلسٹ سوشلسٹ پارٹی کے لیڈر آڈولف ہٹلر 1932 ء میں اپنے پارٹی ممبران کو اپنا مخصوص سلیوٹ دیتے ہوئے
جرمنی میں ہٹلر سلیوٹ نفرت کے اظہار کی نشانی سمجھی جاتی ہےتصویر: AP/picture alliance

پاولک نے وفاقی جرمن حکومت اور وفاقی ریاستوں سے مطالبہ کیا کہ وہ ایسے جرائم کی روک تھام اور اس سلسلے میں سیاسی تعلیم پر اور زیادہ توجہ دیں۔ پاولک کے بقول، ”اس ملک میں ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ دائیں بازو کی  انتہا پسندی اور نسل پرستی کے حوالے سے کوئی چشم پوشی نہ کرے۔‘‘

انہوں نے ہر کسی پر زور دیا، ”بسوں یا ٹرینوں میں ہونے والے ایسے واقعات میں مداخلت کریں اور ہمارے اس بہت متنوع ملک میں  پرامن بقائے باہمی کا دفاع کریں۔‘‘

نتالی پاولک نے کہا، ”یہ اعداد و شمار ایک تلخ حقیقت ہیں لیکن انہیں روزمرہ کا معمول نہیں بننا چاہیے۔‘‘

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button